بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مل والوں سے ادھار کھاد کی بوری مہنگی خریدنا


سوال

میرے ایک دوست جو کہ ایگری کلچر (زمین داری) کا کام کررہا ہے، اس کام کو کرنے میں کچھ  مشکلات پیش آئی ہیں، میرا دوست زمین میں فصلیں وغیرہ اگاتا ہے، فصل تیار ہونے  میں  کھاد وغیرہ  کی ضرورت  پیش آتی ہے، نقد رقم نہ ہونے کی صورت میں وہ  مل والے سے کھاد بطور قرض  کے لیتا ہے، مثلاً کھاد کی بوری کیش کی صورت میں 3400 کی ملتی ہے،  لیکن جب وہ مل والوں سے بطور قرض کے لیتا ہے تو  پھر قیمت کی ادائیگی کے وقت 4000 روپے ادا کرنا ہوتا ہے، کیا یہ معاملہ شرعاً جائز ہے؟

2: پچھلے سال میرے دوسرے نے اوپر ذکر کردہ معاملہ کے مطابق کام کیا تھا، اس میں میرے دوست کو کچھ منافع بھی ہوا تھا، اب اگریہ معاملہ سودی ہے تو اس منافع کا کس طرح ازالہ کریں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا دوست   اگر مل والوں سے کھاد  فی بوری 3400 روپے کے حساب سے خریدتا ہے اور رقم کی ادائیگی تاخیر سے کرنے پر   3400 روپے  کے بجائے 4000 روپے ادا  کرنے کا پابند ہوتا ہے تو یہ معاملہ ناجائز اور حرام ہے، لیکن اگر ابتداء ہی  ادھار مال خریدنے کی صورت میں مجلس عقد میں  فی بوری کھاد کی قیمت 4000 روپے  مقرر کرلی جاتی ہے اور ادائیگی کا وقت بھی طے کرلیا جاتا  ہے اور مزید  تاخیر ہوجانے کی صورت میں 4000 روپے سے زیادہ یعنی جرمانہ ادا کرنے کی شرط نہیں ہوتی  تو یہ معاملہ ناجائز نہیں ہے ؛ کیوں کہ مالک کو اپنی چیز کم  یا  زیادہ قیمت میں  اور  نقد یا ادھار فروخت کرنے کا اختیار ہے۔

2: ماقبل میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اگر معاملہ جائز ہوا تھا تو  اس کےنفع میں بھی کوئی شبہ نہیں، اور اگر معاملہ ناجائز  ہو ا تھا   تو ناجائز معاملہ کی وجہ سے سائل کا دوست گناہ گار ہوگا، اس پر توبہ واستغفار اور آئندہ کے لیے اس سے اجتناب  لازم ہوگا، تاہم  مذکورہ کھاد کی بوری سے حاصل ہونے والا  نفع ناجائز نہیں ہوگا، البتہ حسب استطاعت صدقہ کرنا بہتر ہے۔

موطأ مالك ميں هے:

" وحدثني عن مالك عن زيد بن أسلم أنه قال: " كان الربا في الجاهلية، أن يكون للرجل على الرجل الحق إلى أجل، فإذا حل الأجل، قال: أتقضي أم تربي؟ فإن قضى أخذ، وإلا  زاده في حقه، وأخر عنه في الأجل."

(2 / 672، باب ما جاء في الربا في الدين، ط:  دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان)

"مجمع الأنهر شرح ملتقي الأبهر "میں ہے :

"ویصح البیع بثمن مال مؤجل لإطلاق قوله تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾."

(3/ 13، كتاب البيوع، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

(13/ 8 ، كتاب البيوع ،باب البيوع الفاسدة،ط: دار المعرفة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن قيس بن أبي غرزة قال: كنا نسمى في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم السماسرة فمر بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمانا باسم هو أحسن منه فقال: «يا معشر التجار إن البيع يحضره اللغو والحلف فشوبوه بالصدقة» . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه.

  (فقال: " «يا معشر التجار إن البيع يحضره اللغو» ) : أي غالبا، وهو من الكلام ما لا يعتد به، وقيل: هو الذي يورد لا عن روية وفكر، فيجري مجرى اللغو وهو صوت العصافير، ذكره الطيبي والظاهر أن المراد منه ما لا يعنيه، وما لا طائل تحته، وما لا ينفعه في دينه ودنياه، ومنه قوله - تعالى: {والذين هم عن اللغو معرضون} [المؤمنون: 3] وقد يطلق على القول القبيح كالشتم، ومنه قوله - تعالى: {وإذا سمعوا اللغو أعرضوا عنه} [القصص: 55] وعلى الفعل الباطل ومنه قوله - تعالى: {وإذا مروا باللغو مروا كراما} [الفرقان: 72] . (" والحلف ") : أي إكثاره أو الكاذب منه (" فشوبوه ") بضم أوله، أي اخلطوا ما ذكره من اللغو والحلف (" بالصدقة) : فإنها تطفئ غضب الرب، وأن الحسنات يذهبن السيئات، كذا قيل، وهو إشارة إلى قوله - تعالى: {وآخرون اعترفوا بذنوبهم خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا عسى الله أن يتوب عليهم إن الله غفور رحيم} [التوبة: 102] ."

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  (5 / 1910)   کتاب البيوع، ط: دارالفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412100947

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں