بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میک اپ کے لیے عورت کا بیوٹی پارلر جانے کا حکم


سوال

ہماری برادری میں شادی کے موقع پر ایسا ہوتاہے کہ نکاح سے ایک دن پہلے رات کو شادی والے گھر میں عورتیں جمع ہوتی ہیں اور مہندی لگانے کا اہتمام کیا جاتاہے، اس میں ایسا ہوتاہے کہ میزبان اپنے گھر میں مہندی لگانے والی خواتین کو بلاتے ہیں یہ خواتین مہمان خواتین کے مہندی لگاتی ہیں، یا ایسا ہوتاہے کہ بہت ساری کون مہندی منگوالیتے ہیں اور پھر مہمانوں کو دیتے ہیں، وہ اپنے گھر جاکر لگائیں    یا یہیں،یعنی میزبان کے گھر لگوائیں، بہر حال مہندی لگانے کا اہتمام ہوتاہے، چھوٹی   بڑی تقریبا سب مہندی لگاتی ہیں، اس کے لیے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے اور اس رات کو رتجگہ کی رات کہا جاتاہے اور پھر رات کو کھانے کا بھی اہتمام کرنا پڑتاہے۔                                                                                                                                                             

1۔ اس طرح مہندی کا اہتمام کرنا شرعا کیسا ہے؟

2۔بعض مہندی ایسی  ہوتی ہے کہ جب وہ جسم سے الگ ہوتی ہے تو پاپڑی کی شکل میں اترتی ہے، تقریبا چار یا پانچ دن کے بعد جس میں لگی ہوئی ہے وہ ہاتھ میں کھردرا  سا ہوجاتاہے تو ایسی مہندی کا لگانا کیساہے؟

3۔دلہن کو تیار کرنے کے لیے بیوٹی پارلر لیجانا یا بیوٹی پارلر سے دلہن تیار کرنے والی خواتین کو گھر میں بلاکر دلہن کا میک اپ کروانا کیسا ہے؟                                                                                      

جواب

1۔واضح رہے کہ عورتوں کے لیے  مہندی لگانا جائز ہے اور ایسی مجلس میں   اگر شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں ہوتا تو اجتماعی طور پر بھی لگانا جائز ہے، لیکن  اگر مجلس میں  شریعت کے خلاف کوئی کام ہو تا ہو، مثلا:  مرد وزن کا اختلاط ہو، یا گانا وغیرہ بجانا ہو، یا جاندار کی تصویر اور ویڈیو   وغیرہ بنائی جاتی ہو،  تو ایسی مجلس منعقد کرناشرعا ناجائز ہے اور ترک کرنا لازم ہے۔

2۔سوال میں جس مہندی کا ذکر ہے اگر اس میں کو ئی ناپاک چیز ملی ہوئی نہ ہو اور وضوءیا غسل کے وقت کھال تک پانے پہنچنے کے لیے مانع نہ ہو تو ایسی مہندی کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ موجودہ دور میں بعض مہندیاں ایسی ہیں کہ لگانے کے بعد جب ہاتھ دھولیتے ہیں تو رنگ کے ساتھ ساتھ ایک باریک جھلی نما تہہ بن جاتی ہے اور بعد میں جب رنگ اترنے لگتا ہے تو ایک باریک تہہ چھلکا بن کر الگ ہوجاتی ہے، ایسی مہندی لگاکر وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا ؛ کیوں کہ وہ جسم تک پانی پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی ہے، بشرطیکہ نفسِ مہندی کو دھو کر زائل کرلیا ہو اور صرف رنگ باقی رہ گیا ہو۔

3۔زیب وزینت اور نباؤ سنگہار عورت کا فطری حق ہے، اسلام عورت کی اس فطری خواہش کا مخالف نہیں ہے، مگر اس کے لیے حدود وقیود مقرر کیا ہے، جن سے تجاوز کرنا ہر گز جائز نہیں، موجودہ دور میں بیوٹی پارلر کے ادارے اگر شریعت کے حدود وقیود کی رعایت کرتے ہوں  اور وہاں خلاف شرع امور کو انجام نہ دیا جاتاہو، یعنی کام کرنے والا مردنہ ہو ،بال وغیرہ  کاٹنا  نہ ہو اور دیگر منکرات کے ارتکاب سے بھی احتراز کیا جاتاہو، تو ایسے بیوٹی پارلر  اگر قریب ہے گھر کی عورتوں کے ساتھ اور اگر دور ہے تو محرم کے ساتھ جانا جائز ہے، اسی طرح بیوٹو پارلر سے دلہن کو تیار کرنے والی خواتین کو گھر میں بلا کر  شریعت کی  حدود میں رہ کر دلہن کا میک اپ کروانا بھی  جائز ہے، تاہم اگر بیوٹی پارلر کے موجودہ  ادارے  میں شریعت کےحدود کی  رعایت نہیں کی جاتی ہو، یا عور ت بغیر محرم کے چلی جاتی ہو یادیگر منکرات کا ارتکاب کیا جاتاہو تو ایسے بیوٹی پارلر میں جانے کی شرعا گنجائش نہیں۔

فتاوی رحیمہ میں ہے:

"فضول خرچی اور لغو کام ہے بلکہ دھوکا بازی بھی ہے، اپنے اصلی رنگ کو چھپانا اور مصنوعی خوبصورتی کی نمائش کرنا ہے ، اس قسم کے کاموں سے بچنا ہے، عورت اپنے شوہر کی خاطر سادہ اور پرانے طریقہ کےمطابق جو فیشن میں داخل نہ ہو اور فجار وفساق کفار کے ساتھ مشابہت لازم نہ آتی ہےایسی زیب وزینت کرسکتی ہے بلکہ مطلوب ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:10، ص:160ط: دار الاشاعت)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا»."

[كتاب الإيمان، ج:1، ص99، ط:دار إحياء التراث العربي]

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: من رأى) أي: علم (منكم منكرا) أي: في غيره من المؤمنين، والخطاب للصحابة أصالة ولغيرهم من الأمة تبعا، وفي الإتيان بمن التبعيضية إشعار بأنه من فروض الكفاية، وإيماء إلى أنه لا يباشره إلا من يعرف مراتب الإحسان وتفاوت المنكرات، ويميز بين المتفق عليه والمختلف فيه منها، وهذا المعنى مقتبس من قوله تعالى: {ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر وأولئك هم المفلحون}  وخلاصة الكلام: ‌من ‌أبصر ‌ما ‌أنكره ‌الشرع (فليغيره بيده) أي: بأن يمنعه بالفعل بأن يكسر الآلات ويريق الخمر."

[كتاب الآداب، ج:8، ص:3208، ط:دار الفكر بيروت]

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وفي الجامع الصغير ‌سئل ‌أبو ‌القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي. كذا في الذخيرة وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار. كذا في الزاهدي ناقلا عن الجامع الأصغر،والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل. كذا في السراج الوهاج ناقلا عن الوجيز."

[كتاب الطهارة، ج:1، ص:4، ط: دار الفكر]

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لها (السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة؛ و) لها (زيارة أهلها بلا إذنه ما لم تقبضه) أي المعجل، فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها أو لزيارة أبويها كل جمعة مرة أو المحارم كل سنة، ولكونها قابلة أو غاسلة لا فيما عدا ذلك، وإن أذن كانا عاصيين قوله فيما عدا ذلك) عبارة الفتح: وأما عدا ذلك من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة لا يأذن لها ولا تخرج إلخ (قوله والمعتمد إلخ) عبارته فيما سيجيء في النفقة: وله منعها من الحمام إلا النفساء وإن جاز بلا تزين وكشف عورة أحد."

[كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:146، ط:سعيد]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101901

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں