بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے موقع پر کھانا کھلانا


سوال

 میری پھوپی وفات پاگئی تھی ،اس موقع پر ہم  چار بھائیوں نے  اور ہمارے ایک چچا نے یہ طے کیا کہ سوگ واران (سوگ کے لیے آنے والوں کو) کھانا ہم سب مل کر کھلائیں گے، تقریبا 3500 روپے فی کس رقم  جمع کرکے تمام مہمانوں اور سوگواران  کوکھانا کھلایاگیا،اور ان کے علاوہ محلہ داروں کو بھی مدعو کیا گیا،اور جن لوگوں نے رقم جمع کی تھی ،اُن کی پوری فیملی کو بھی کھانے پر مدعو کیا گیا،بعد میں دوسرے رشتہ داروں نے بھی اسی طرح  سب کو مدعو کرکےدوسرے وقت کا کھانا کھلایا اور یہ عمل ہر فوتگی پر کیا جاتا ہے ،کیا یہ  عمل جائز ہے یا ناجائز   راہ نمائی فرمائیں ؟

جواب

 جس گھر میں میت ہوجائے ،تو اُن کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب یہ ہے کہ میت کے گھر والوں کے لیے اُس دن (دو وقت) کے کھانے کا انتظام کریں اور خود ساتھ بیٹھ کر، اصرار کر کے ان کو کھلائیں،اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے۔

لیکن اس کے برعکس میت کے گھرانے والوں کا عام لوگوں کے لیے دعوت و خیرات کا اہتمام کرنا ،یہ بالکل درست نہیں ہے،بلکہ جنازے یا تعزیت میں آنے والے افراد کو جنازے اور تعزیت سے فارغ ہوکر   اپنے اپنے گھروں کو واپس  چلے جانا چاہیے، میت کے گھر قیام بھی نہیں کرنا چاہیے اور اہلِ میت کے یہاں ضیافت و دعوت بھی نہیں کھانی چاہیے، خواہ  میت کے اہلِ خانہ اصرار کریں، کیوں کہ دعوت کا کھانا تو خوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ غم کے موقع پر، اسی لیے فقہاء نے تعزیت کے موقع پر کھانے کی دعوت کو مکروہ اور بدعتِ مستقبحہ قرار دیا ہے۔

  تاہم رشتہ دارلوگ دور دراز سے جنازہ  میں شرکت کے لیے یا تعزیت کے لیے آتے ہیں او ردوسری جگہ قیام کی متبادل   جگہ نہ ہوں اور  اہلِ میت یا ان کے قریبی اعزہ ان کے لیے کھانے کا نظم کردیں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے اور ان کے لیے میت کے گھر کھانے میں حرج نہیں اور وہ کھانا خود میت کے گھر بھی پکایا جا سکتا ہے اور نزدیک پڑوسی کے گھر میں بھی، دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں،بشرط یہ کہ یہ کھانا میت کے ترکے میں سے نہ بنایا گیا ہو، خصوصاً جب کہ ورثاء میں نابالغ بھی ہوں، نیز یہ کھانا قرآن خوانی وغیرہ کی اجرت او رمعاوضے کے طور پر نہ ہو۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: صانعوا ‌لآل ‌جعفر طعاما فقد أتاهم ما يشغلهم)،رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه".

"(‌اصنعوا ‌لآل ‌جعفر طعاما) أي: يتقوتون به يسمى الآن بمكة، رفعه بضم الراء، ولا يفعلونه إلا بعد الدفن عند دخول الليل. (فقد أتاهم) أي: من موت جعفر. (ما يشغلهم) بفتح الياء والغين وقيل: بضم الأول وكسر الثالث) ، القاموس: شغله كمنعه شغلا ويضم، وأشغله لغة جيدة أو قليلة، أو رديئة، والمعنى جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لا يشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ; لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم. قال الغزالي: ويكره الأكل منه، قلت: وهذا إذا لم يكن من مال اليتيم أو الغائب، وإلا فهو حرام بلا خلاف".

(كتاب الجنائز، باب البكاء على الميت، الفصل الثاني، ج:3، ص:1241، رقم:1739،ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

  فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف،ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون.اهـ.

مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم". 

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت، ص:240، ط: سعید)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"كل واحد من الشركاء في ‌شركة ‌الملك أجنبي في حصة الآخر ولا يعتبر أحد وكيلا عن الآخر فلذلك لا يجوز تصرف أحدهما في حصة الآخر بدون إذنه....".

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول، الفصل الثاني، ج:3، ص: 28، رقم المادة: 1075، ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں