بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میڈیسن کمپنی کے ساتھ ڈاکٹروں کا یہ معاہدہ کرنا کہ اگر ہمیں یہ یہ چیزیں دو گے تو ہم آپ کی دوائیاں مریضوں کے لیے لکھیں گے ورنہ نہیں


سوال

میں ایک میڈیسن کمپنی میں کام کرتاہوں،  جس کی دوائی اچھی کوالٹی کی ہوتی ہے، لیکن ڈاکٹر حضرات ہم سے ویسے دوائی نہیں لیتے، بلکہ ہم سے کہتے ہیں کہ ہمارے کلینک کے لیے اے سی یا صوفے وغیرہ کی ضرورت ہے اگر وہ دوگے تب ہم آپ کی دوائی مریضوں کے لیے لکھیں گےاور کبھی نقد رقم کا بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر اتنی رقم ہمیں دوگے تب ہم آپ کی دوائی مریضوں کے لیے لکھیں گے اور کمپنی کی طرف سے بھی ہم پر سختی ہوتی ہے کہ ڈاکٹر حضرات پر خرچ کیا کرو؛ تاکہ وہ ہماری میڈیسن قبول کریں اور مریضوں کے لیے لکھیں، اور ہم جو کچھ بھی ڈاکٹرز حضرات کو دیتے ہیں وہ کمپنی کی طرف سے دیتے ہیں؛ کیوں کہ ہم تو کمپنی کے مزدور ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اگر کمپنی کی طرف سےمیرے ہاتھ پر ڈاکٹرزکو مذکورہ چیزیں یا رقم دی جاتی ہے  تو کیا اس سے میں  گناہ گار ہوں گا یا نہیں؟ نیز میری تنخواہ کا کیا حکم ہے ؟ کیوں کہ مجھے بھی تنخواہ  کمپنی دیتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر میڈیسن کمپنیوں کے نمائندے اپنی ادویات متعارف کروانے کے لیے ڈاکٹر حضرات سے ملتے ہیں اور بغیر کسی شرط کے محض وقت دینے پر ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی تحفہ دیتے ہیں تو ڈاکٹر حضرات کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے کمپنیوں کی طرف سے ملنے والے تحائف یا کمیشن کا استعمال جائز ہے :

1۔  دوا تجویز کرتے وقت مریض کی مصلحت اور خیر خواہی کو مدنظر رکھا جائے۔

2۔  محض کمیشن، تحائف اور مراعات و سہولیات حاصل کرنے کی خاطر غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز نہ کی جائیں۔

3 ۔  کسی دوسری کمپنی کی دوا مریض کے لیے زیادہ مفید ہونے کے باوجود خاص اسی کمپنی ہی کی دوائی تجویز نہ کی جائے۔

4 ۔  دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹر کو دیے جانے والے کمیشن، تحفہ اور مراعات کا خرچہ دوائیاں مہنگی کرکے مریض سے وصول نہ کریں، یا خرچہ وصول کرنے کے لیے دوائیوں کے معیار میں کمی نہ کریں۔

اگر ان شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو تحائف کا لین دین کمپنی اور ڈاکٹرز کے لیے جائز ہے،لیکن اگر اِن شرائط کا لحاظ نہیں رکھاجاتا ہےاور یہ تحائف، نقد رقم یا دیگر سہولیات اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہیں کہ مریضوں کو اسی مخصوص کمپنی کی ادویات تجویز کی جائیں گی اگر چہ اُن کے لیے کسی اور کمپنی کی ادویات زیادہ مفیدہوں،یا محض کمیشن اور تحائف کے خاطر مریضوں کے لیے  غیر معیاری و غیر ضروری ادویات تجویز کی جاتی ہیں تو ایسی صورت میں یہ  رشوت اور خیانت  کا معاملہ ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے، میڈیسن کمپنی والوں کا ڈاکٹروں کے ساتھ اس قسم کا معاہدہ کرنا ناجائز ہے، اگر یہ چیزیں سائل کے ہاتھ پر ڈاکٹر زکو دی جاتی ہیں تو  ایک ناجائز معاملے میں معاونت کی وجہ سے سائل کے لیے بھی ایسا کرنا جائز نہیں ہے، تاہم سائل کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ چوں کہ دوائیاں بیچنے کے کام کی ملتی ہے جو کہ فی نفسہ ایک جائز کام ہے، اس لیے وہ تنخواہ لینا سائل کے لیے جائز ہے۔

ارشادِ باری تعالٰی ہے:

"إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخائِنِينَ."(الأنفال: 58)

ترجمہ:بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:

"إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كانَ خَوَّاناً أَثِيماً."(النساء: 107)

ترجمہ:یقیناً اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ‌ليحكم ‌له أو يحمله على ما يريد."

(كتاب القضاء، أخذ القضاء بالرشوة، 285/6، ط: دار الكتاب الإسلامي)

مسند احمد میں ہے:

"عن ثوبان قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والرائش " يعني: الذي يمشي بينهما."

(تتمة مسند الأنصار، حديث ثوبان، 85/37، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےرشوت لینے والے ،رشوت دینے والے اوررائش یعنی ان دونوں کے درمیان  رشوت کے لین دین میں کوشش کرنے والے پرلعنت فرمائی۔

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"عن تميم الداري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال الدين النصيحة قلنا لمن قال لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم) هذا حديث عظيم الشأن وعليه مدار الإسلام.....وأما نصيحة عامة المسلمين وهم من عدا ولاة الأمر فإرشادهم لمصالحهم في آخرتهم ودنياهم وكف الأذى عنهم فيعلمهم ما يجهلونه من دينهم ويعينهم عليه بالقول والفعل وستر عوراتهم وسد خلاتهم ودفع المضار عنهم وجلب المنافع لهم وأمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر برفق وإخلاص والشفقة عليهم وتوقير كبيرهم ورحمة صغيرهم وتخولهم بالموعظة الحسنة وترك غشهم وحسدهم وأن يحب لهم ما يجب لنفسه من الخير ويكره لهم ما يكره لنفسه من المكروه والذب عن أموالهم وأعراضهم وغير ذلك من أحوالهم بالقول والفعل وحثهم على التخلق بجميع ما ذكرناه من أنواع النصيحة وتنشيط هممهم إلى الطاعات....قال والنصيحة لازمة على قدر الطاقة إذا علم الناصح أنه يقبل نصحه ويطاع أمره وأمن على نفسه المكروه فإن خشي على نفسه أذى فهو في سعة."

(كتاب الإيمان، باب بيان أن الدين النصيحة، 37،39/2، ط: دار إحياء التراث العربي)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله تعالٰى:(وَتَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَلا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ) يأمر تعالٰى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم."

(سورة المائدة، 10،11/3، ط: دارالكتب العلمية) 

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144403101539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں