بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میڈیا کے ذریعہ دین کی تبلیغ کرنا


سوال

موجود دور میں جب کہ سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون کا دور ہے، اور اب لوگ کتابوں کے بجائے موبائل اور اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں، اور جب اسلام اور اس کے قوانین پر آواز اٹھتی ہے یا تاریخ اسلامی میں جھوٹ کی ملاوٹ کی جاتی ہے اور انٹرنیٹ کی مدد سے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے، تو لوگ تحقیق کرنے کے بجائے انہی پر یقین کرنے لگتے ہیں اور ان کے ذہن طرح طرح کے شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے موقعے پر اگر انہی وسائل کے ذریعے ان غلط بیانیوں کا رد نہ کیا جائے تو یہ شکوک وشبہات اور غلط فہمیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی، اور چونکہ ایم پی ۳ کو لوگ سنتے نہیں اور اس پر اتنی توجہ نہیں دیتے اور خاص کر ماڈرن ذہنیت کے لوگ اس طرح کے بیانات یا ویڈیوز کو آثار قدیمہ کا حصہ سمجھتے ہیں، تو دین کی دعوت کےلیے سوشل میڈیا کا سہارا لینا کیساہے؟

جواب

واضح  رہے کہ لوگوں کو اللہ تعالی کے اوامر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی طرف بلانا اور ان کو اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے تیار کرنا امت کے مسلمانوں پر (فرض کفایہ کے طور پر) ضروری ہے، تاہم یہ ضرورت اور لزوم استطاعت اور  قدرت کے ساتھ مقید ہےاور   ہر مسلمان بلکہ ہر عالم شریعت کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق  حسب استطاعت تبلیغ ، اصلاح  اور شبہات کا دفع کرنے کامکلف ہے ، خود کو معاصی اور گناہوں میں مبتلا کرکے دین کی دعوت یا شکوک وشبہات دفع کرنے  کا مکلف نہیں، اس بارے  میں حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

” ہم لوگ (مسلمان) اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو لوگوں کو پکا مسلمان بناکر چھوڑیں گے، ہاں! اس بات کے مکلف ضرور ہیں کہ تبلیغِ دین کے لیے جتنے جائز ذرائع اور وسائل ہمارے بس میں ہیں، ان کو اختیار کرکے اپنی پوری کوشش صرف کردیں، اسلام نے جہاں ہمیں تبلیغ کا حکم دیا ہے، وہاں تبلیغ کے باوقار طریقے اور آداب بھی بتائے ہیں، ہم ان آداب اور طریقوں کے دائرے میں رہ کر تبلیغ کے مکلف ہیں، اگر ان جائز ذرائع اور تبلیغ کے ان آداب کے ساتھ ہم اپنی تبلیغی کوششوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ عین مراد ہے، لیکن اگر بالفرض ان جائز ذرائع سے ہمیں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ہم اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ناجائز ذرائع اختیار کرکے لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور تبلیغ کے آداب کو پسِ پشت ڈال کر جس جائز وناجائز طریقے سے ممکن ہو، لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، اگر جائز وسائل کے ذریعے اور آدابِ تبلیغ کے ساتھ ہم ایک شخص کو دین کا پابند بنادیں گے تو ہماری تبلیغ کامیاب ہے اور اگر ناجائز ذرائع اختیار کرکے ہم سو آدمیوں کو بھی اپنا ہم نوا بنالیں تو اس کامیابی کی اللہ کے یہاں کوئی قیمت نہیں، کیوں کہ دین کے احکام کو پامال کر کے جو تبلیغ کی جائے گی وہ دین کی نہیں کسی اور چیز کی تبلیغ ہوگی۔“

( از محدث العصر  مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ،بحوالہ نقوشِ رفتگاں، ص:104ط: مکتبۂ معارف القرآن) 

تفسیر قرطبی میں ہے:

"فجعل ‌تعالى ‌الأمر ‌بالمعروف والنهي عن المنكر فرقا بين المؤمنين والمنافقين، فدل على أن أخص أوصاف المؤمن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ورأسها الدعاء إلى الإسلام والقتال عليه. ثم إن الأمر بالمعروف لا يليق بكل أحد، وإنما يقوم به السلطان إذ كانت إقامة الحدود إليه، والتعزيز إلى رأيه، والحبس والإطلاق له، والنفي والتغريب، فينصب في كل بلدة رجلا صالحا قويا عالما أمينا ويأمره بذلك، ويمضي الحدود على وجهها من غير زيادة... قال: ‌والأحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم في تأكيد الأمر بالمعروف ‌والنهي عن المنكر كثيرة جدا ولكنها مقيدة بالاستطاعة."

وفیہ ایضا:

"‌قلت: ‌القول ‌الأول ‌أصح، فإنه يدل على أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض على الكفاية."

(سورہ آل عمران، ج:4، ص:48۔165، ط: دار الکتب المصری)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"آپ کے ذہن میں رہنا چاہیے کہ دینِ اسلام دینِ ہدایت ہے، جس کی دعوت وتبلیغ کے لیے اللہ تعالی نے حضرات انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرات صحابہ کرام نے، حضرات تابعین نے ائمہ دین نے علمائے امت نے اس فریضے کو ہمیشہ انجام دیا، ہدایت پھیلانے کا کام انہی حضرات کے نقش قدم پر چل کر ہوسکتاہے، ان کے راستے سے ہٹ کر نہیں ہوسکتا، تبلیغ دین کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرنے کی اجازت ہےجو بذات خود مباح اور جائز ہوں، حرام اور ناجائز ذرائع اختیار کرکےہدایت پھیلانے کا کام نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ناجائز ذرائع خود شر ہیں، شر کے ذریعہ شر تو پھیل سکتاہے،شر کے ذریعہ خیر اور ہدایت کو پھیلانے کا تصور غلط ہے۔"

[فلم دیکھنا، ج:8، ص:431، ط:مکتبہ لدھیانوی]

احسن الفتاوی میں ہے:

"اصلاح وتبلیغ کی نیت سے معصیت کاارتکاب ہر کز جائز نہیں، جب ارشاد وتبلیغ سے مقصد اللہ تعالی کی رضا ہے تو اس مقصد کی تحصیل کے لیے اس کی معصیت کا کیا مطلب؟"

[متفرقات الحظر والاباحہ، ج8:، ص190، ط:سعید]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402101353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں