میری بہن کےشوہر نے mib بینک میں تکافل پالیسی کیا، اس کو حرام ہونے کا علم نہیں تھا، ابھی میں نے آپ کے مدرسے کا فتوی بھیجا، وہ دوبئی میں مسافر ہے،وہ بہت پشیمان ہوئے،اب بینک منیجر سے رابطہ کیا تو اس نےکہا کہ آپ کے دستخط کے بغیر وہ ختم نہیں ہوں گےاور آپ کی رقم 3لاکھ میں سے فنڈ میں چلا گیا ہے ،ابھی ختم ہونے کی صورت میں آپ کو اگر زیادہ ملے گا تو 1لاکھ 50ہزار مل جائے گا اور اگر 2 سال 2لاکھ اور جمع کریں تو آپ کو اپنا پورا 5لاکھ مل جائے گا، برائے مہربانی اس مسئلے کی شریعت کی رو سے راہ نمائی فرمائیں ۔
صورتِ مسئولہ میں آپ کے بہنوئی پرلازم ہے کہ مذکورہ تکافل پالیسی کو بلا تاخیر فوری طور پر ختم کردیں،تاکہ مزیدگناہ کامرتکب نہ ہو،آپ کے بہنوئی نےجتنی رقم mibبینک تکافل پالیسی میں جمع کراوئی ہے،اتنی ہی رقم لےسکتاہے،نیزآپ کے بہنوئی پر لازم ہے کہ مذکورہ بینک والوں کے مطالبے پرمزیدرقم جمع نہ کروائے،باقی بینک والےتکافل پالیسی ختم کرنےپرجوکٹوتی کررہےہیں،آپ کے بہنوئی اس ادارےسے لینےکامجازہے،اوراگرادارےوالےدینے پرراضی نہ ہوں توآپ کے بہنوئی قانونی تقاضوں کوپوراکرتےہوئے متعلقہ عدالت کےذریعےسےاپنی بقایارقم وصول کرنے کے حق دار ہوں گے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾[المائدة: 90]."
ترجمہ:" اے ایمان والوں! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کی تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہے، سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"
( بیان القرآن ،سورۃ المائدۃ، الآیۃ: 90)
صحیح مسلم میں ہے:
"عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال هم سواء."
(صحیح مسلم، کتاب المساقات، ج:3، ص:1219، ط: دار إحیاء التراث العربی)
ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺ نے سود کھانے والے، اور کھلانے والے اور (سودکاحساب) لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے،اور فرمایا: کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".
(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6 ص: 403، ط: سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله : ولا يملك الوقف) بإجماع الفقهاء، كما نقله في فتح القدير؛ ولقوله عليه السلام لعمر -رضي الله عنه-: «تصدق بأصلها لاتباع ولاتورث». ولأنه باللزوم خرج عن ملك الواقف وبلا ملك لايتمكن من البيع، أفاد بمنع تمليكه وتملكه منع رهنه، فلا يجوز للمتولي رهنه."
(کتاب الوقف، ج: 5 ص: 221، ط: دار الکتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"والذي يظهر لي: أنه لا يحل للتاجر أخذ بدل الهالك من ماله لأن هذا التزام ما لا يلزم."
(باب المستأمن، ص:170، ج:4،ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144407101590
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن