بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے گھر کھاناکھانے،تیجے دسویں،چالیسویں کا حکم


سوال

1:جس گھر میں فوتگی ہوجائے اس گھر میں کھانا کھانا کیسا ہے؟میت کو دفنانے کے بعد میت کے ورثاء کی طرف سے جنازے میں شریک تمام افراد کے لیے کھانے کا انتظام کرنا اور نہ کرنے والے کو ملامت کرنا کیسا ہے؟

2:نیز تیجے،اور ہر ہفتے جمعرات کے دن میت کے ایصال ثواب کی نیت سے لوگوں کو جمع کرنا اور پھر قرآن خوانی کروانا اور پھر دیگ وغیرہ بنوا کر کھانے کا انتظام کرنا کیسا ہے؟کیا یہ سب صدقہ کا طریقہ از روئے شریعت درست ہے؟اس میں چونکہ تمام عوام مبتلا ہے، تو کیا عموم بلوی کا اعتبار کرکے اسکو جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟

جواب

1:شریعتِ مطہرہ نےاہلِ میت کے غم وتکلیف اور میت کی تکفین وتدفین میں مصروفیت کا لحاظ کرتےہوئے دیگر مسلمانوں کوترغیب دی ہے، کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کےلیےاس دن کے کھانے کا بندوبست کردے،البتہ اگر میت کے عزیزواقارب اور رشتہ داروں کی طرف سے میت کی تکفین اور تدفین میں شریک لوگوں کےلیے بندوبست ہوتو سہی ورنہ نہ ہونےکی صورت میں میت کے ورثاء کو ملامت کرنا شرعاًدرست نہیں ہے،بلکہ ایسے لوگوں کو اپنے ہی گھروں میں کھاناکھاناچاہیے۔

2:میت کی ایصالِ ثواب کی غرض سےقرآن کریم کی تلاوت کرنااور ان کاثواب میت کو بخشواناشرعاًکارِ خیراور باعثِ ثواب ہے، لیکن اس کےلیے مخصوص اجتماعات کا التزام کرنا اور قرآنی خوانی کرنے والوں کےلیے دعوت کا اہتمام والتزام کرنا شرعاًدرست نہیں ہے۔

اسی طرح میت کے ایصالِ ثواب کےلیےکھانا پکانا اور غرباء ومساکین کوکھلانایاان کےدرمیان تقسیم کرناشرعاًدرست اور باعثِ ثواب ہے، لیکن ان کےلیے کسی وقت ،دن ،مہینہ ،سال،یادیگراُن قیودات وتخصیصات کو شامل کرنا جو شرعاًثابت نہیں ہے،رسم اور بدعت ہے، جس سے احتراز کرنا لازم ہے، لہذا عرف اور ابتلاء عوام کی وجہ سے اسے جواز فراہم کرنا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية:ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازہ،مطلب فی الصواب علی المصیبۃ،ج:2،ص:240،ط:سعید)

چنا نچہ فتاوی محمودیہ میں ہے: 

"قرآنِ کریم پڑھ کر ثواب پہنچانا مفید ہے، ہز گز گناہ نہیں ۔۔۔  اور پڑھنے والوں کو کھانا کھلایا جائے یہ ثابت نہیں ، یہ کھانا پڑھنے اور ختم کرنے کی اجرت کے درجہ میں آتا ہے جو کہ شرعاً منع ہے۔  فتاوی بزایہ، ردالمحتار وغیرہ میں اس کو بدعت اور مکروہ لکھا ہے، اس کو اجرت کے تحت پڑھنے سے ثواب نہیں ہوتا، بلکہ گناہ ہوتا ہے۔"

(فتاوی محمودیہ، ج: 3، صفحہ: 72 /73، ط: دارہ الفاروق کراچی) 

کفایت المفتی  میں ہے:

"تیجہ ،دسواں، چالیسواں،بطورِ رسم کے کرنا بدعت ہے؛کیونکہ شریعت نے ایصالِ ثواب اور صدقہ وخیرات کےلیےکسی تاریخ ،کسی دن اور کسی زمانےاورکسی کھانے اور کسی چیزکی تخصیص نہیں کی ہے،لیکن کھاناجو بغرضِ صدقہ وبہ نیتِ ایصالِ ثواب پکایااورکھلایاجائےوہ کھاناناجائز وحرام نہیں ہے،البتہ پیشواؤں کو ایسے اجتماعات میں شرکت سے احتراز کرنا چاہیے،تاکہ ان کی شرکت ان اجتماعات کےجواز کےلیےبطورِ دلیل پیش نہ کیاجاسکےاور چوں کہ یہ کھاناصدقہ کا حکم رکھتاہے؛اس لیے صاحب نصاب کےلیےاس کو اپنے استعمال میں لانااصل مقصد کو باطل کردیتاہے،اور جو شخص کہ دوسروں کو منع کرےاور خود شریک ہواور فاتحہ خوانی کرےوہ أتأمرون الناس إلخ کےماتحت امربالمعروف ونہی عن المنکر کے باوجودبے عملی کا مجرم ہے۔"

(کتاب العقائد،ج:1،ص:224،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100876

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں