بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی میں سے کوئی مرجائے تو دوسرے کے لیے محرم یا نامحرم ہونے کا حکم


سوال

 کیا مرنے کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے نامحرم ہو جاتے ہیں؟ 

جواب

میاں بیوی میں سے کسی ایک کے انتقال کی صورت میں پردے کا حکم یہ ہے کہ شوہر  کے انتقال کی صورت میں چوں کہ دورانِ عدت مرحوم شوہر کا حق اپنی بیوہ پر برقرار رہتا ہے، اور نکاح بھی عدت مکمل ہونے تک قائم رہتا ہے؛ لہٰذا بیوی کے لیے اپنے مرحوم شوہر کو دیکھنا اور اس کے جسم کو بلا حائل چھونا وغیرہ جائز ہے، بلکہ اگر مرحوم شوہر کو غسل دینے والا کوئی مرد نہ ہو تو بیوہ اسے غسل بھی دے سکتی ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا} [النساء:۲۳]

قرآن مجید میں ہے:

{وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ}[النساء:24]

فتاوی شامی میں ہے:

(وهي لاتمنع من ذلك) 

"و النكاح بعد الموت باق إلى أن تنقضي العدة".

(باب صلوة الجنازة، ٢/ ١٩٨، ط: سعيد)

تاہم بیوی کے انتقال کی صورت میں نکاح کا رشتہ اس طور پر ختم ہوجاتا ہے کہ شوہر  مرحومہ بیوی کے جسم کو نہ بلا حائل چھو سکتا ہے، نہ غسل دے سکتا ہے اور نکاح کی وجہ سے بیوی کے وہ تمام رشتہ دار جن سے نکاح کی شرعاً اجازت نہیں تھی (مثلاً: سالی، بیوی کی بھتیجی، بھانجی، پھوپھی، خالہ وغیرہ) وہ سب کے سب حلال ہوجاتے ہیں، البتہ شوہر مرحومہ بیوی کے چہرے کو دیکھ سکتا ہے، جنازہ کو کندھا دے سکتا ہے، مرحومہ بیوی کے محارم کے ساتھ اس کی قبر میں بھی اترسکتا ہے۔

تنویر الابصار میں ہے:

"(و يمنع زوجها من غسلها و مسها لا من النظر إليها علي الأصح) منية".

(شامي، باب صلوة الجنازة، ٢/ ١٩٨، ط: سعيد)

خلاصة الفتاوی  میں ہے: 

"وقال الإمام الأجل فخر الدين خان: يكره للناس أن يمنعوا حمل جنازة المرأة لزوجها مع أبيها و أخيها، و يدخل الزوج في القبر مع محرمها استحساناً، و هو الصحيح و عليه الفتوي."(١ / ٢٢٥) 

فقط واللہ اعلم



فتوی نمبر : 144201200137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں