بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے حقوق


سوال

شوہر اور بیوی کے ایک دو سرے پر حقوق اور اخلاقی فرض اگر ہو سکے تو بتا دیں۔

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی کا رشتہ قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے حسن اخلاق سے نبھایا جائے تو یہ رشتہ کامیاب رہتا ہے ،ضابطہ کی روسے جہاں بہت ساری ذمہ داریاں بیوی پر عائد نہیں ہوتیں وہیں شوہر بھی بہت سے معاملات میں بری الذمہ ہوجاتا ہے ۔  لیکن دوسری طرف حسن معاشرت کا تقاضا اور بیوی کی سعادت ونیک بختی اس میں ہے کہ وہ شوہر اور اس کے والدین کی خدمت بجالائے نیزاگر کبھی شوہر کسی خدمت کا حکم دے تو اس صورت میں بیوی پر اس کی تعمیل واجب ہوجاتی ہے ۔شوہرکی خدمت ،تابعداری اوراطاعت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمارارشادات موجودہیں،چناں چہ ایک حدیث میں ہے:

''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:اگرمیں کسی کویہ حکم کرتاکہ وہ کسی (غیراللہ)کوسجدہ کرے تومیں یقیناًعورت کوحکم کرتاکہ وہ اپنے خاوندکرسجدہ کرے۔"

صاحب مظاہرحق اس کے ذیل میں لکھتے ہیں:

''مطلب یہ ہے کہ رب معبودکے علاوہ اورکسی کوسجدہ کرنادرست نہیں ہے اگرکسی غیراللہ کوسجدہ کرنادرست ہوتاتومیں عورت کوحکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندکوسجدہ کرے،کیوں کہ بیوی پراس کے خاوندکے بہت زیادہ حقوق ہیں،جن کی ادائیگی کرسے وہ عاجزہے،گویااس ارشادگرامی میں اس بات کی اہمیت وتاکیدکوبیان کیاگیاہے کہ بیوی پراپنے شوہرکی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہے۔"

نیزشوہروں کوبھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیدکی گئی ہے،چناںچہ ایک روایت میں ہے:

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تم میں بہترین شخص وہ ہے جواپنے اہل(بیوی،بچوں،اقرباء اورخدمت گاروں)کے حق میں بہترین ہو،اورمیں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔"

اس مسئلہ میں اعتدال کی ضرورت ہے،نہ یہ  کہ تمام ذمہ داریاں بیوی پرڈال دی جائیں اورنہ یہ کہ بیوی اپنے ضرورت مندشوہریاساس،سسرکی خدمت سے بھی دامن کش ہوجائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہماکے نکاح کے بعد کام کی تقسیم اس طرح فرمائی تھی کہ باہرکاکام اورذمہ داریاں حضرت علی رضی اللہ عنہ انجام دیں گے اورگھریلوکام کاج اورذمہ داریاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے سپردہوں گی۔جب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اس ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں تودوسری خواتین کے لیے کیوں کراس کی گنجائش ہوسکتی ہے؟

اسی طرح شادی کے بعد میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے، ا س کے بغیر پرسکون زندگی کاحصول محال ہے، شریعتِ مطہرہ  میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو  بہت اہمیت  کے ساتھ  بیان  کیا گیا ہے اور  دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کے بہت تاکید کی گئی ہے، اس بارے میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

شوہر کے حقوق: 

جو عورت شوہر  کی نافرمانی کرے احادیثِ مبارکہ میں ایسی عورت سے متعلق سخت وعیدیں آئی ہیں، اور جو عورت شوہر کی فرماں برداری  اور اطاعت کرے اس کی بڑی فضیلت  بیان  کی گئی ہے۔

حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح".

(مشکاة المصابیح، 2/280،  باب عشرة النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے  تو فرشتہ اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے  رہتے ہیں۔ (مظاہر حق، 3/358، ط؛  دارالاشاعت)

         ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".

(مشکاة المصابیح، 2/281،  باب عشرة النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ  وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔

(مظاہر حق، 3/366، ط؛  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي  أبواب الجنة شاءت. رواه أبو نعيم في الحلية".

(مشکاة المصابیح، 2/281،  باب عشرة النساء، ط: قدیمی)

ترجمہ:  حضرت انس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے  (اپنی پاکی کے  دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی،  رمضان کے  (ادا اور قضا) رکھے،  اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی  اور اپنے خاوند  کی فرماں برداری کی  تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔

(مظاہر حق، 3/366، ط: دارالاشاعت)

 بیو ی کے حقوق:   

قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں عورتوں کے حقوق بھی  بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، شوہر پر  عورت کے حقوق ادا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾ [النساء: 19]

ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی  کے  ساتھ گزران کرو،  اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو  ممکن ہے  کہ تم ایک شے  کو ناپسند کرو  اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر  کوئی  بڑی منفعت رکھ دے۔(ازبیان القرآن)

         حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".

(مشکاة المصابیح، 2/282،  باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ: رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔

(مظاہر حق، 3/370، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".

(مشکاة المصابیح، 2/281، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ:رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں۔

(مظاہر حق، 3/365، ط:  دارالاشاعت)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايفرك مؤمن مؤمنةً إن كره منها خلقاً رضي منها آخر. رواه مسلم".

(مشکاة المصابیح، 2/280، باب عشرة النساء، ط: قدیمي)

ترجمہ: رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے بغض نہ رکھے،  اگر  اس کی نظر میں اس عورت کی کوئی  خصلت وعادت ناپسندیدہ ہوگی  تو  کوئی دوسری خصلت وعادت پسندیدہ بھی ہوگی۔

(مظاہر حق، 3/354، ط: دارالاشاعت)

خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے  کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے،  اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا  اور آخرت کی بھلائی  اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے،  اور شوہر کو چاہیے کہ  وہ اپنی بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے،  اس  کی قدر اور اس سے محبت  کرے، اگر اس سے غلطی ہوجائےتو چشم پوشی  سے کام لے، صبروتحمل اور دانش مندی سے اس کی  اصلاح کی کوشش کرے،  اپنی استطاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں