بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کے درمیان زبردستی تفریق کرانے کا حکم


سوال

میں نے پہلی بیوی سے بچے نہ ہونے کی وجہ سے  گواہوں کی موجودگی میں دوسری  شادی کی ،  صرف نکاح ہوا ہے ، رخصتی نہیں ہوئی، میں نے رخصتی کے لیے  ڈیڑھ مہینے کا وقت مانگا،  اب کچھ وقت پہلے نکاح خواں  (جس نے میرا نکاح پڑھایا ) اس سے  منہ ماری ہوئی، اس لیے وہ  اپنی طرف کہہ رہا ہے کہ وہ خاتون آپ کے ساتھ شادی کے لیے  راضی نہیں ہے ، اس  لیے کہ آپ نے رخصتی میں وقت لگادیا،لہذا آپ  جرمانے کے طور پر دولاکھ  روپے بھی دے دو اورطلاق دے دو،حالاں کہ میں نے  پانچ تولہ سونا میں سے ڈھائی تولہ سونا  ادا بھی کیا ہے ، جب کہ لڑکی والوں  نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا ہے اور نہ انہوں اس حوالہ  سے کوئی بات کی ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے وہاں  کے نکاح  خواں لوگوں کا وڈیرہ  سسٹم ہے ، اپنی مرضی سے غریب لوگوں  کے ساتھ کیا کیا نہیں کرتے ۔

1۔اب سوال یہ ہے کہ کیا میں اس نکاح خواں کے  کہنے پر طلاق دے دوں،نکاح خواں کے لیے ایسا کرناجائز ہے؟

2۔کیامجھے جرمانہ کے طور پر دو لاکھ روپے ادا کرنا ضروری ہے؟

جواب

1،2۔بصورتِ صدق واقعہ جب سائل کا مذکورہ خاتون کے ساتھ نکاح منعقد ہوگیا ہے، اور مہر ادا کرنے کی کوشش بھی کررہا ہے اورسائل  اس نکاح پر  مکمل طور پرراضی بھی ہے تو ایسی صورت  میں مذکورہ نکاح خواں کے لیے   جائز نہیں کہ سائل کو نکاح ختم کرنے پرمجبورکرے،  ایسا کرنا اس کے لیے ناجائز اور حرام ہے،اور نہ ہی سائل پر لازم ہے کہ اس کے کہنے پر  اپنی بیوی کو طلاق دے، بلکہ سائل کو  چاہیے  کہ رخصتی کراکے  دونوں ساتھ رہیں، اور نہ ہی مذکورہ نکاح خواں کے لئے جرمانہ کے طور رقم کامطالبہ درست ہے، دونوں گناہ اور ظلم کے کام ہیں، مذکورہ نکاح خواں کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے، اور کسی میاں بیوی میں تفریق پیدا کرکے  ظلم کا مرتکب نہ بنے۔

 سنن أبي داود میں ہے: 

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس منا من خبب امرأة على زوجها، أو عبدا على سيده."

(ج:2، ص: 254،ط:دار الكتب العلمية)

وفیه أیضًا:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من خبب زوجة امرئ، أو مملوكه فليس منا."

(ج:4، ص: 343،ط:دار الكتب العلمية)

وفي شرحه :

"(من خبب زوجة امرئ) أي خدعها وأفسدها أو حسن إليها الطلاق ليتزوجها أو يزوجها لغيره أو غير ذلك."

(عون المعبود  و حاشية ابن القيم، باب في من خبب امرأة على زوجها، ج:14، ص: 52، ط:دار الكتب العلمية - بيروت )

السنن الكبرى للبيهقي  میں ہے:

"أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحلّ مال رجل مسلم لأخيه، إلا ما أعطاه بطيب نفسه."

(ج:8، ص: 316، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں