ہماری مہمند صافی برادری میں لڑکی کی رخصتی ہونے کے بعد لڑکے سے ملاقات دوسرے دن ولیمہ کے بعد کی جاتی ہے، آیا یہ طریقہ درست ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔
ولیمہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ شبِ زفاف کے بعد تین دن کے اندر اندر کیا جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح ثابت ہے۔
صورتِ مسئولہ میں شبِ زفاف سے پہلے ولیمہ کرنا مسنون طریقے کے خلاف ہے، لہٰذا شبِ زفاف کے بعد تین دن کے اندر ولیمہ کا انعقاد کیا جاۓ۔
بخاري شريف میں ہے:
"عن أنس - رضي الله عنه - قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب ابنة جحش."
(كتاب تفسير القرآن، سورة الاحزاب، باب قوله: لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم، ج: 6، ص: 119، ط: دار طوق النجاة)
فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:
"ووليمة العرس سنة، وفيها مثوبة عظيمة وهي إذا بنى الرجل بامرأته ينبغي أن يدعو الجيران والأقرباء والأصدقاء ويذبح لهم ويصنع لهم طعاما."
(کتاب الکراہية،باب الثانی عشر فی الھدایا و الضیافات، ج: 5، ص: 343، ط: دارالفکر بیروت)
فتح الباری میں ہے:
"عن أنس قال تزوج النبي صلى الله عليه وسلم صفية وجعل عتقها صداقها وجعل الوليمة ثلاثة أيام."
(باب حق اجابة الوليمة والدعوة، ج: 9، ص: 243، ط: دار المعرفة بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144307102367
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن