میری اور بیوی کے درمیان علیحدگی ہوچکی ہے، اس کے بعد وہ ایک چائنیز لڑکے کے ساتھ نکاح کر کے چائنہ چلی گئی، میرے دو بچے ہیں،ایک لڑکا چار سالہ اور ایک لڑکی پانچ سالہ، سوال یہ ہے کہ ان بچوں کی پرورش کا حق کس کو حاصل ہے؟ والد کو والدہ کو؟ والدہ فی الحال نکاح کر کے چائنہ میں رہ رہی ہے، کبھی کبھار وہ پاکستان آکر اپنے بچوں سے مل لیتی ہے۔
بچوں کی کفالت (پرورش) سے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ بیٹے کی عمر سات سال ہونے تک اور بیٹی کی عمر نو سال ہونے تک ان کی پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہوتا ہے،بشرطیکہ بچوں کی والدہ دوسری جگہ بچوں کے غیر محرم شخص سے شادی نہ کرلے، لیکن اگر والدہ نے کسی ایسے شخص سے شادی کرلی جو بچوں کے لیے غیر محرم ہو تو والدہ کا حقِ پرورش ساقط ہوجائے گا اور بچوں کی مقررہ عمر مکمل ہونے تک ان کی پرورش کا حق ان کی نانی کو حاصل ہوگا، البتہ اگر نانی وفات پاگئی تو بچے مقررہ عمر پوری ہونے تک دادی کی پرورش میں رہیں گے۔بیٹے کی عمر سات سال ہونے اور بیٹی کی عمر نو سال ہونے کے بعد ان کی پرورش کا حق ان کے والد کو حاصل ہوجاتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ بچوں کی والدہ نے ایسے شخص سے شادی کرلی ہے جو بچوں کے لیے اجنبی ہے اس لیے بچوں کی والدہ کا حق پرورش ساقط ہوچکا ہے، چناں چہ فی الحال آپ کے چار سالہ بیٹے اور پانچ سالہ بیٹی کی پرورش کا حق ان کی نانی کو حاصل ہے، البتہ اگر نانی وفات پاگئی ہو یا پرورش سے انکار کردےتو بچے مقررہ عمر پوری ہونے تک دادی کی پرورش میں رہیں گے ، جب بیٹا سات سال کا ہوجائے ااور بیٹی نو سال کی ہوجائے تو ان کی پرورش کا حق ان کے والد یعنی آپ کو حاصل ہوجائے گا، اس لیے بچوں کو مقررہ عمر تک پہنچنے کے بعد والدکے حوالے کرنا شرعاً ضروری ہوگا ۔
بچےجس عرصے میں والدہ یا نانی وغیرہ کی پرورش میں ہوں تو اس عرصے میں والد کو بھی ان سے ملنے کا حق ہوتا ہے، اسی طرح جب بچے والد کی پرورش میں ہوں تو والدہ کو بھی ان سے ملنے کا حق ہوتا ہے، والد یا والدہ کا ایک دوسرے کو بچوں سے ملنے سے روکنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(تثبت للأم) ... (ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور."
(کتاب الطلاق، باب الحضانة،3/ 555، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء، وقدر بسبع، وبه يفتى؛ لأنه الغالب ...(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.
وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع، وبه يفتى."
(کتاب الطلاق، باب الحضانة،3/ 566، ط: سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"في التتارخانية: الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده. اهـ. ولا يخفى أن السفر أعظم مانع."
(کتاب الطلاق، باب الحضانة،3/ 571، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100185
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن