اگر لڑکا خلع نامہ لڑکی کے گھر والوں یا خاندان والوں کے کہنے پر بنوالے، جس پر مرد اور عورت دونوں کے دستخط کی ضرورت ہو، اور اس خلع نامہ پر پہلے عورت اپنے گواہ کے سامنے دستخط کرے، پھر لڑکا اس پر اپنے گواہ کے سامنے دستخط کرے، تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی یا نہیں؟ لیکن وہ لڑکامنہ سے تین بار طلاق نہیں دیتا ہے۔
نیز اگر طلاق واقع ہوجاتی ہے تو لڑکی کا حق مہر لڑکا اس وقت نہیں دیتا اور وہ یہ کہتا ہے کہ میری حیثیت نہیں ہے، میں ماہانہ پانچ ہزار قسط دوں گا، لیکن وہ قسط بھی نہیں دیتا، اس کے بعد اگر کچھ عرصہ بعد وہ لڑکا حق مہر دینا چاہے تو جو نکاح کے وقت حق مہر طے پایا گیا ہے، وہ دیا جائے گا یا اس سے زیادہ دیا جائے گا؟
واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے،جس طرح دیگر مالی معاملات کے درست اور معتبر ہونے کے لیے عاقدین کی رضامندی شرعاً ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے درست اور معتبر ہونے کے لیے بھی جانبین (زوجین)کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، صورتِ مسئولہ میں چونکہ میاں بیوی نے آپس کی رضامندی سے اپنے اپنے گواہوں کے سامنے خلع کے پیپر پر دستخط کئے تھے، لہذا یہ خلع شرعًا معتبر ہوگا، دونوں کانکاح ختم ہوگیا ہے، عورت عدت(تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
نیز نکاح کے وقت زوجین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی،بشرط کہ شوہر نے خلع میں مہر کی معافی کی شرط نہ رکھی ہو۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں شوہر جب بھی حق مہر ادا کرے گا تو جتنا نکاح کے وقت متعین ہوا تھا،وہی ادا کرنا ضروری ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:440، ط: دار الفکر)
بدائع الصنائع میں ہے :
"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق، فصل في شرائط رکن الطلاق، ج:3، ص:145 ،ط: دار الکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى)."
(کتاب النکاح، باب المھر، ج:3، ص:102، ط: دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع."
(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيمايتاكد به المهر، ج:1، ص:304، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101959
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن