میری شادی کے تیس سال بعد سے اب تک میری اور میری بیوی کے درمیان کشیدگی رہی ہے ،بات بات پر لڑائی اور جھگڑ ا اور ہر بات پر مجھے جھوٹا ثابت کرنا ، اس کے علاوہ بچے بھی مجھے صحیح نظر سے نہیں دیکھتے اورعزت بھی نہیں کرتے ،میں کئی کئی دن گھر سے باہر ہوتا ہوں ان سے ناراض ہوکر ،مجھ سے پوچھتے ہی نہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ بیوی کے شوہر پر اور شوہر کے بیوی پر کیا حقوق ہیں ؟ بچوں کا بتا دیں کہ وہ میںری عزت نہیں کرتے ، ان پر والدین کے حقوق لازم ہیں یا نہیں ؟
شریعتِ مطہرہ میں میاں بیوی کے باہمی حقوق کو بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی بہت تاکید کی گئی ہے، شوہر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ، نان و نفقہ وغیرہ ادا کرے اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور اچھے اخلاق سے پیش آئے، اسی طرح بیوی کو بھی اپنے شوہر کے حقوق کا خیال کرنے اور اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، نافرمانی اور بدتمیزی سے منع کیا گیا ہے۔ اس بارے میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
شوہر کے حقوق:
احادیث مبارکہ میں جو عورت شوہر کے نافرمانی کرے ایسی عورت کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اور جو عورت شوہر کی فرماں برداری اور اطاعت کرے اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح»".
(مشکاۃ المصابیح، 2/280، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی مرد اپنی عورت کو ہم بستر ہونے کے لیے بلائے اور وہ انکار کردے، اور پھر شوہر (اس انکار کی وجہ سے) رات بھر غصہ کی حالت میں رہے تو فرشتہ اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔
(مظاہر حق، 3/358، ط؛ دارالاشاعت)
ایک اور حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".
(مشکاۃ المصابیح، 2/281، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔
(مظاہر حق، 3/366، ط؛ دارالاشاعت)
ایک اور حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية".
(مشکاۃ المصابیح، 2/281، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے (اپنی پاکی کے دنوں میں پابندی کے ساتھ) پانچوں وقت کی نماز پڑھی، رمضان کے (ادا اور قضا) رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اور اپنے خاوند کی فرماں برداری کی تو (اس عورت کے لیے یہ بشارت ہےکہ) وہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔
(مظاہر حق، 3/366، ط: دارالاشاعت)
بیو ی کے حقوق:
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں عورتوں کے حقوق بھی بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ، شوہر پر عورت کے حقوق ادا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا﴾
[النساء: 19]
ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کرو، اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔(ازبیان القرآن)
حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".
(مشکاۃ المصابیح، 2/282، باب عشرۃ النساء، ط؛ قدیمی)
ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔
(مظاہر حق، 3/370، ط؛ دارالاشاعت)
ایک اور حدیث مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي".
(مشکاۃ المصابیح، 2/281، باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)
ترجمہ:رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں۔
(مظاہر حق، 3/365، ط؛ دارالاشاعت)
نیز اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کے شریعت کے موافق ہر حکم کو بجالائے۔ والدین کے ذمے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد میں ہر ممکن حد تک برابری اور انصاف کریں، اپنی اولاد کی خوشیوں کا خیال رکھیں، انہیں ان کی جائز ضروریات اور معاملات سے محروم نہ رکھیں، اور ان پر بے جا ظلم و زیادتی سے ہر طرح گریز کریں۔
لہذا اگر کوئی شخص اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتاہے اور ان کی خدمت و اطاعت بجالاتا ہے، اس صورت میں والدین کو بھی اولاد کی ضروریات کا خیال رکھناچاہیے، اگر والدین بے جا ناراضی کا اظہار کرتے ہیں اور جائز معاملات میں بھی روک ٹوک کرتے ہیں تو اس کی وجہ سےان شاء اللہ اولاد کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ تاہم اس صورت میں بھی والدین کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اور انہیں شرعی حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانا چاہیے، اور والدین جب غصہ ہوں تو ان کے سامنے جواب نہ دیں، انہیں جھڑکیں نہیں، بلکہ ادب سے ان کی بات سنیں، اور ان کے حق میں وہ دعا کرتے رہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سکھائی ہے:
{رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْرًا}
یعنی اے میرے رب! ان دونوں (میرے والدین) پر رحم فرما، جیسے انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور تربیت کی۔
قرآنِ پاک میں ہے کہ والدین اگر اولاد کو شرک پر مجبور کریں تو اولاد ان کی اطاعت نہ کرے، لیکن دنیا میں ان کے ساتھ پھر بھی اچھا سلوک رکھے۔ شرک و کفر سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوسکتا اس پر مجبور کرنے کے باوجود والدین کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت نہیں ہے تو ذاتی نوعیت کی زیادتیاں اور ظلم تو بہت کم درجے کے ہیں، اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی تعلیم درج ذیل حدیث سے سمجھی جاسکتی ہے:
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".
(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
خلاصہ یہ ہے کہ بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے سے بالاتر سمجھے، اس کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی اس کی خوشی سے وابستہ سمجھے، اور شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو اللہ کی عطا کی ہوئی نعمت سمجھے، اس کی قدر اور اس سے محبت کرے، اگر اس سے غلطی ہوجائے تو چشم پوشی سے کام لے، صبروتحمل اور دانش مندی سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے، اپنی استطاعت کی حد تک اس کی ضروریات اچھی طرح پوری کرے، اس کی راحت رسانی اور دل جوئی کی کوشش کرے۔ نیز والد اپنی اولاد کے حقوق کا خیال کرے اور اوراولاد والدین کی عزت و احترام کریں اور کسی بھی صورت میں والدین سے بدتمیز ی اور نافرمانی کرنے سے اجتناب کرے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100809
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن