بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی تیسری طلاق کا دعوی کرے، شوہر منکر ہو تو کیا حکم ہوگا ؟


سوال

میں نے اپنی بیوی کو دو گواہوں کی موجودگی میں ان الفاظ کے ساتھ کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں،  دو طلاقیں دی تھیں، پھر عدت میں رجوع بھی کرلیا تھا، اب آٹھ سال کے بعد بیوی دعوی کررہی ہے کہ میں نے اسے تیسری طلاق بھی دی ہے، حالانکہ میں نے اسے تیسری طلاق نہیں دی، میری بیوی کے پاس کوئی گواہ نہیں ہیں اور میں اس کے سامنے اپنی بات پر قسم بھی اٹھا چکا ہوں۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ مذکورہ صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں دو طلاقیں تو   یقینی طور پر واقع ہوچکی ہیں،  بیوی آٹھ سال کے بعد تیسری طلاق کا دعوی کررہی ہے اور اس کے پاس اپنے دعوی پر گواہ بھی  نہیں ہیں، جب کہ شوہر اس کا منکر ہے اور وہ اپنی بات پر قسم بھی اٹھا چکا ہے تو ایسی صورت میں اگر عورت کو اس کی قسم پر اعتماد ہو تو یہ   نکاح برقرار ہے ،لیکن  اگر عورت  شوہر کی بات پر اعتماد نہ کرے اور اختلاف برقرار رہے تو ایسی صورت میں دونوں کو چاہیے کہ وہ کسی معتبر عالمِ دین یا مفتی کے پاس جاکر ان کو اپنا فیصل مقرر کر یں اور پھر وہ عالمِ دین یا مفتی  شریعت کی روشنی میں جو فیصلہ فرمادیں اس کے مطابق عمل کریں، فیصلے سے پہلے نہ تو میاں بیوی ازدواجی تعلق قائم کریں اور نہ عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرے۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

اذا شھد شاہدان علی رجل انہ طلق امراتہ ثلاثا، و جحد الزوج و المراۃ ذلک فرق بینھما

(فتاوی تاتارخانیہ،جلد5،کتاب الطلاق، الفصل التاسع عشر فی الشھادۃ و الدعوی فی الطلاق، ص:116، ط: مکتبہ زکریا، دیوبند)

و فیہ ایضاً:

فی کل موضع یصدق الزوج علی نفی النیۃ انما یصدق مع الیمین

(فتاوی تاتارخانیہ، جلد4، کتاب الطلاق، الفصل الخامس فی الکنایات، نوع آخر فی بیان حکم الکنایات، ص:472، ط: مکتبہ زکریا، دیوبند)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

سوال 

زینب کہتی ہے کہ خالد میرے شوہر نے مجھ کو طلاق دی، خالد انکار کرتا ہے، زینب کی تصدیق تین چار شخص کرتے ہیں، شرعاً کس کی تصدیق کی جائے گی؟

جواب

اگر زینب کے یہ گواہ عادل اور معتبر ہیں تو زینب کی تصدیق کی جاوے گی اور اگر معتبر اور عادل نہیں ہیں تو ان کی گواہی زینب کے حق میں مقبول نہیں تو خاوند کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہوگا۔

(فتاوی محمودیہ، جلد13، کتاب الطلاق، باب الشہود فی الطلاق، ص: 305 / 306)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تفسيره تصيير غيره حاكما فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح، كذا في محيط السرخسي يجب أن يعلم بأن التحكيم جائز وشرط جوازه أن يكون الحكم من أهل الشهادة وقت التحكيم ووقت الحكم أيضا۔"

(فتاوی ہندیہ، جلد3، کتاب ادب القاضی، الباب الرابع و العشرون فی التحکیم، ص: 397، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100456

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں