بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا ایک دوسرے کے سامنے کپڑے بدلنے کا حکم


سوال

کیا میاں بیوی ایک دوسرے کی موجود گی میں کپڑے بدل سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی ایک دوسرے کی موجودگی میں ، ایک دوسرے کے سامنے کپڑے بدل سکتے ہیں، تاہم میاں بیوی کاایک دوسرے کی شرمگاہ کو دیکھنا غیرمناسب ہے اورنسیان کی بیماری کاسبب بنتاہے؛اس لیے شرم گاہ دیکھنے سے احتیاط کرنا بہتر ہے۔حدیث شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سترکی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی ۔‘‘

اس حدیث کے ذیل میں صاحب مظاہرحق علامہ قطب الدین دہلوی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے یہ الفاظ ہیں کہ :’’نہ توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میراسترکبھی دیکھااورنہ کبھی میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاستردیکھا۔‘‘

ان روایتوں سے معلوم ہواکہ اگرچہ شوہراوربیوی ایک دوسرے کاستردیکھ سکتے ہیں، لیکن آداب زندگی اورشرم وحیاء کاانتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہراوربیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کاسترنہ دیکھیں۔دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے تو کپڑا ڈالے،اورگدھوں کی طرح ننگانہ ہو۔‘‘(یعنی بالکل برہنہ نہ ہو)۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن عائشة، قالت:ما ‌نظرت، أو ما رأيت فرج رسول الله صلى الله عليه وسلم قط."

(کتاب النکاح ، باب التستر عند الجماع، ج: 1، ص: 619، ط: داراحیاء الکتب العربیة)

وفیه أیضاً:

"عن عتبة بن عبد السلمي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا أتى أحدكم أهله ‌فليستتر، ولا يتجرد تجرد العيرين."

(کتاب النکاح ، باب التستر عند الجماع، ج: 1، ص: 618،  ط: داراحیاء الکتب العربیة)

ہدایہ میں ہے:

"‌الأولى أن لا ‌ينظر كل واحد منهما إلى عورة صاحبه لقوله عليه الصلاة والسلام: "إذا أتى أحدكم أهله فليستتر ما استطاع ولا يتجردان تجرد العير" ولأن ذلك يورث النسيان لورود الأثر."

(كتاب الكراهية، فصل: في الوطء والنظر واللمس، ج: 4، ص: 370، ط: دار احياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں