بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا باہمی رضامندی سے بچہ کی ولادت آپریشن سے کروانا


سوال

 ایک عورت ہے جس کی خواہش یہ ہے کہ میں اپنے بچے کی ولادت آپریشن کے ذریعے سے کرواؤں؛ کیونکہ نارمل ڈیلیوری کے صورت میں بچے کے پیدائش کے بعد جماع میں پہلے کی طرح لذت اور مزہ نہیں رہتا اور اس کےشوہر کی رغبت بھی اس بات کی طرف ہے ،تو کیا شوہر کی خوشی کی خاطر ایسا کرنا اسلامی نقطہ نظر سے صحیح ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ ولادت کےآپریشن اور سرجری میں عورت کے پیٹ کا کاٹا جاتا ہے جس میں اذیت ، تکلیف اور بعد میں عورت کو کافی عرصہ تک کمزوریوں وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے؛اسی وجہ سے   شریعت مطہر ہ بلا ضرورت   آپریشن اورخود کو  تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتی ،سخت مجبوری ہو تو اجازت دیتی ہے؛ اس  لیے کہ   انسان کی جان اور اس کے اعضاء یہ اللہ کی طرف سے امانت ہیں ،انسان اپنی جان اور اعضاء کا خود مختار مالک نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے۔ نیز ضرورت  کے بغیر  آپریشن  کے ذریعے ولادت کروانے میں غیر مرد کے سامنے ستر کھولنے کی نوبت بھی آتی ہے، اور شرعًا اس کی اجازت نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کے لئے بلاضرورت نارمل ڈلیوری کی جگہ آپریشن سے ولادت  کو ترجیح دینا شرعا درست نہیں ہےاور آپریشن کی جو وجہ لکھی ہے وہ بھی شرعا معتبر نہیں البتہ  اگر  عین  والادت کے وقت میں  ڈاکٹر  کہیں کہ آپریشن ضروری ہے، ورنہ بچہ یا ماں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے تو پھر مجبوری کی بناء پر آپریشن کی اجازت ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا اعترض الولد في بطن الحامل ولم يجدوا سبيلا لاستخراج الولد إلا بقطع الولد إربا إربا ولو لم يفعلوا ذلك يخاف على الأم قالوا إن كان الولد ميتا في البطن لا بأس به وإن كان حيا لم نر جواز قطع الولد إربا إربا كذا في فتاوى قاضي خان.

لا بأس ‌بقطع ‌العضو إن وقعت فيه الآكلة لئلا تسري كذا في السراجية. لا بأس بقطع اليد من الآكلة وشق البطن لما فيه كذا في الملتقط.

 إذا أراد الرجل أن يقطع إصبعا زائدة أو شيئا آخر قال نصير - رحمه الله تعالى - إن كان الغالب على من قطع مثل ذلك الهلاك فإنه لا يفعل وإن كان الغالب هو النجاة فهو في سعة من ذلك رجل أو امرأة، قطع الإصبع الزائدة من ولده قال بعضهم لا يضمن ولهما ولاية المعالجة وهو المختار ...من له سلعة زائدة يريد قطعها إن كان الغالب الهلاك فلا يفعل وإلا فلا بأس به كذا في خزانة المفتين... ولا بأس بشق المثانة إذا كانت فيها حصاة وفي الكيسانيات في الجراحات المخوفة والقروح العظيمة والحصاة الواقعة في المثانة ونحوها إن قيل قد ينجو وقد يموت أو ينجو ولا يموت يعالج."

(كتاب الكراهيه،‌‌الباب الحادي والعشرون فيما يسع من جراحات بني آدم والحيوانات،360/5،ط:ماجدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں