بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو دفن کرنے کے بعد میت کے گھر میں مرحوم کے رشتہ داروں کو چائے پلانے کا حکم


سوال

میت کو دفن کرنے کے بعد میت کے گھر جو رشتے دار آتے ہیں ان کو چائے پلانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد پڑوسیوں اور ہم سایوں کے لیے  مستحب ہے کہ ایک دن اور ایک رات کے لیے اہل میت کے لیے کھانا پینا کا انتظام کریں، نیزمیت کے اہل خانہ کے علاوہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں اور انہیں یہاں قیام کرنا ہو، اگر وہ بھی کھانے پینے  میں شریک ہوجائیں تو ان کا شریک ہونا  بھی درست ہے،تاہم ایسے افراد جو قریب میں رہتے ہیں، یا جو تعزیت کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے، میت کے گھر کھانے میں شریک نہ ہوں، یہ خوشی کا موقع نہیں ہے کہ دعوت کھائی جائے، دعوت شریعت میں خوشی کے موقع پر مشروع ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  آنے والے مہمانوں کے اکرام کی خاطر اگر  چائے کاانتظام میت کے رشتہ دار اور ہم سایوں کی طرف سے ہو تو چائےپلانے میں کوئی مضائقہ نہیں،البتہ  اگر ان کی طرف سے انتظام نہ ہو بلکہ میت کے ترکہ سے انتظام کیا جارہاہو تو ایسی صورت میں میراث کے احکام کی رعایت رکھنا ضروری ہوگا، یعنی اس میں میراث کے احکام کی رعایت رکھنا ضروری ہےاگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہیں اور وہ اپنی خوشی سے کھاناوغیرہ تیار کرکے دور سے آنے والے مہمانوں کو بخوشی دیتے ہیں تو ان کے لیے کھانے کی اجازت ہوگی، اگر ورثاء کی رضامندی نہ ہو یا  ورثہ میں نابالغ یا ناسمجھ بھی ہوں تو اولًا اس مال سے کھاناوغیرہ نہ بنایا جائے، بلکہ  اہلِ محلہ یا دوسرے رشتے دار اپنی طرف سے کھانےوغیرہ کا انتظام کردیں، اور اگر کہیں سے انتظام نہ ہو، بلکہ اہلِ میت کو ہی دور سے آنے والے مہمانوں کے لیے میت کے ترکے سے کھاناوغیرہ تیار کرنا پڑے تو ایسی صورت میں ورثہ میں سے نابالغ اور ناسمجھ ورثاء کے حصے میں سے اسے منہا نہ کیا جائے، صرف  ان بالغ ورثہ کے حصے سے اسے منہا کیا جائے گا جنہوں نے اپنی رضامندی سے ایسا کیا۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ‌ويستحب ‌لجيران ‌أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت،وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة."

[كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:240،ط:سعيد]

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

[كتاب الحدود، ج:4، ص:61، ط:سعيد]

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

’’جس گھر میں میّت ہوجائے وہاں چولہا جلانے کی کوئی ممانعت نہیں، چوں کہ میت  کے گھر والے صدمے کی وجہ سے کھانا پکانے کا اہتمام نہیں کریں گے؛ اس لیے عزیز و اقارب اور ہم سایوں کو حکم ہے کہ ان کے گھر کھانا پہنچائیں اور ان کو کھلانے کی کوشش کریں۔اپنے  چچازاد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں کو یہ حکم فرمایا تھا، اور یہ حکم بطورِ  استحباب کے ہے، اگر میّت کے گھر والے کھانا پکانے کا انتظام کرلیں تو کوئی گناہ نہیں، نہ کوئی عار یا عیب کی بات ہے‘‘۔

(میت کے احکام،ج۴ ص۳۲۰، مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں