پانچ سال پہلے میری اپنی بیوی کے ساتھ کچھ ناچاقیاں ہوئی تھیں،جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر چلی گئی اور پھر ہمارے درمیان کوئی رابطہ نہ ہوسکا،میری بیوی میرے ساتھ بالکل بھی رہنے کو تیارنہیں ہےاور میرے خاندان والوں کو کہتی ہےکہ میرا اپنے شوہر سے رشتہ ختم ہوگیا ہے،اب میں بھی اس رشتہ کو ختم کرکے دوسری جگہ شادی کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ بھی اپنی خوشی سے رہے،اور میں بھی دوسری جگہ شادی کرکے اپنی زندگی گزارسکوں،ازراہِ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں میری راہ نمائی فرمائیں کہ ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟اور میں اس سے کس طرح علیحدگی اختیار کروں؟
واضح رہے کہ میاں بیوی کا لمبے عرصہ تک ایک دوسرے سے جدا رہنے سے ان کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لہذا اگر سائل نے بیوی کو طلاق نہیں دی ہے تو محض بیوی سے پانچ سال کے عرصے تک علیحدہ رہنے سے دونوں کا نکاح ختم نہیں ہوا، ان کا آپس میں نکاح بدستور برقرار ہے، البتہ نکاح کرنے کی وجہ سے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے بہت سے حقوق لازم ہوجاتے ہیں، جو اِس طرح الگ رہنے سے ضائع ہوجاتے ہیں اور ان کے ضائع کرنے کا شرعاً گناہ بھی ہے۔
سوال میں مذکورہ مسئلے کا حل یہ ہےکہ سائل دونوں خاندان کے بڑوں کے علم میں یہ بات لائےاور دونوں طرف کے بڑوں کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ ایک مرتبہ آپس میں بیٹھیں اور تمام امور پر غور کرکے ناچاقیوں کے اسباب معلوم کریں، اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں،تا کہ نباہ کی کوئی صورت بن سکے اور علیحدگی کی نوبت نہ آئے۔ لیکن اگر کسی طرح مسئلہ حل نہ ہوتا ہو اور اختلافات بھی ختم نہ ہوتے ہوں توسائل کے لیے یہ جائز ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر اپنے آپ سےعلیحدہ کر دے۔اورطلاق دینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو اہم شرائط کے ساتھ صرف ایک طلاق دے دی جائے: 1۔عورت پاکی کی حالت میں ہو، 2۔شوہر عورت کو ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دے رہا ہو کہ اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو۔طلاق کے الفاظ یہ ہوں :”میں تمہیں یا اپنی بیوی کوایک طلاق دیتا ہوں“۔
صرف ایک طلاق دینے پر عدت کے دوران رجعت بھی کی جاسکتی ہے، یعنی میاں بیوی والے تعلقات کسی نکاح کے بغیر دوبارہ بحال کیے جاسکتے ہیں۔ عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح بھی ہوسکتا ہے۔ نیز عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔ غرضیکہ اس طرح طلاق واقع ہونے کے بعد بھی ازدواجی سلسلہ کو بحال کرنا ممکن ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرنے کا مکمل اختیار بھی رکھتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اور طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتو صرف ایک طلاق دے دی جائے، تاکہ غلطی کا احساس ہونے پر عدت کے دوران رجعت اور عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کا راستہ کھلا رہے۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بالکل بچنا چاہیے، کیونکہ اس کے بعد رجعت یا دوبارہ نکاح کرنے کا راستہ بظاہر بند ہوجاتا ہے۔وقوع طلاق کے لیے گواہ بنانا ضروری نہیں ہے،بغیر گواہوں کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔البتہ گواہ بنالینا مستحب ہےتاکہ بعد میں کوئی جھوٹا دعوی نہ کرسکے۔
تفسیر قرطبی میں ہے:
"(وأشهدوا ذوي عدل منكم) فيه ست مسائل: الأولى- قوله تعالى: وأشهدوا أمر بالإشهاد «4» على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعا. وهذا الإشهاد مندوب إليه عندأبي حنيفة، كقوله تعالى: وأشهدوا إذا تبايعتم «1» [البقرة: 282]. وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألا يقع بينهما التجاحد، وألا يتهم في إمساكها، ولئلا يموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية «2» ليرث."
(سورۃ الطلاق،ج:18،ص:158/157،ط:دار الكتب المصرية - القاهرة)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(أما تفسيره) شرعافهو رفع قيد النكاح حالا أو مآلا بلفظ مخصوص كذا في البحر الرائق...(وأما حكمه) فوقوع الفرقة بانقضاء العدة في الرجعي وبدونه في البائن كذا في فتح القدير. وزوال حل المناكحة متى تم ثلاثا."
(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسيره وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه وفيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه، ج:1، ص:148، ط: دار الفکر)
وفيه ايضا:
"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت فنوعان حسن وأحسن فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها."
(کتاب الطلاق،الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه،ج:1،ص:348،ط:دارالفکر بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"«وركنه لفظ مخصوص».
(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه."
(کتاب الطلاق ج:3، ص:230، ط :سعید)
وفيه ايضا:
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".
(کتاب الطلاق،باب الرجعۃ،ج:3،ص:399/398/397،ط:سعید)
وفيه ايضا:
"(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع."
(كتاب الطلاق،باب الخلع،ج:3،ص:441،ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603102355
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن