میرا سوال یہ ہے کہ میری بیوی کچھ عرصہ قبل اپنے گھرچلی گئی تھی، اور بچوں کو بھی ساتھ لے گئی تھی، ہمارے(میاں بیوی کے) درمیان جو اختلاف تھا، اسےختم کرنے کے لیےہم نے مدرسہ بنوری ٹاؤن میں فتوی جمع کروایاتھا اور ہمارے درمیان تحکیم ہوئی اور فیصلہ کردیاگیا، لیکن جو فیصلہ ہوا تھا اور جو جو ذمہ داریاں بتائی گئی تھیں، میری بیوی ان کے ماننے کے لیے تیار نہ ہوئی اور ان میں سے کسی پر بھی عمل نہیں کیا، بلکہ تین ماہ میرے پاس رہ کر دوبارہ اپنے گھر چلی گئی اور مجھ پر عدالت میں 491 کا کیس لگادیا(باپ نے بچوں کو اغواا کر کے رکھا ہے) جس کی وجہ سے کورٹ نے مجھ سے بچے لے کر اس میری بیوی کے حوالے کردیے، اب صورتِ حال بہت بگڑ چکی ہے، لہذا اب میں یہ چاہتا ہوں کہ:
1: میں ان معاملات کوختم کردوں، میں اپنی بیوی کو اپنے سے جدا کرنا چاہتا ہوں، اس کا شرعی طریقہ کیا ہوگا؟
2: ہمارے درمیان علیحدگی ہوجانے کے بعد ہمارے بچے کس کے پاس رہیں گے؟میری تین بیٹیاں ہیں(دو سات سال کی ہیں اور ایک چار سال کی)، جو تقریبًا نو ماہ سے اپنی ماں کے پاس رہ رہی ہیں، میں جب بھی ان سے ملنے جاتاہوں تو میری بیوی کے گھر والے مجھے ملنے نہیں دیتے اور جھگڑا کرتے، مارپیٹ کرتے ہیں، میں نے نو ماہ سے اپنی بیٹیوں سے ملاقات نہیں کی ہے، کیا مجھے اپنی بیٹیوں سے ملنے کاحق نہیں ہے؟جو لوگ ملنے نہیں دیتے ان کا کیاحکم ہے؟
نوٹ: تحکیم کے فتوے کا نمبر:144410100184 ہے۔
1: صورتِ مسئولہ میں سائل اور اس کی بیوی کو اب بھی یہی چاہیے کہ نباہ کی کوشش کریں ، لیکن اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن پائے اور طلاق کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہے، نہ سائل کی بیوی تحکیم کے فیصلہ پر راضی ہورہی ہے، اورنہ ہی دونوں کے مزاج آپس میں مل رہے ہیں ، نیز سائل یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑدے، تو ایسی صورت میں سائل کے لیے طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ سائل اپنی بیوی کو ایسی پاکی کی حالت میں ایک طلاقِ رجعی دے، جس پاکی میں اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ملاقات نہ کی ہو، ایک طلاق کے بعد اگر عدت کے دوران مفاہمت ہوتی ہو تو رجوع کرلے، اور اگر رجوع نہ کرے تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزاد ہوگی، وہ کسی اور سے نکاح کرنا چاہے تو درست ہوگا، ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے پھرصلح کی کوئی صورت نکل آئے تو نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول کے ساتھ دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے، دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں سائل کو آئندہ کے لیے صرف دوطلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن إبراهيم قال: كانوا يستحبون أن يطلقها] واحدة ثم يتركها حتى تحيض (ثلاث حيض)."
(كتاب الطلاق، مايستحب من طلاق السنة، ج:10، ص:91، ط: دار التاج، لبنان)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وأقسامه ثلاثة: حسن، وأحسن، وبدعي يأثم به)....(طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن)."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:231، ط: سعيد)
2: سائل اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق (جدائیگی)کے بعد سائل کی مذکورہ تینوں بیٹیوں کی نو سال کی عمر ہونے تک ان کی پرورش کا حق شرعًا ماں کو حاصل ہے، اخراجات باپ کے ذمہ ہیں،نو سال کی عمرہوجانے کے بعد شرعاًوالد کو اپنی تحویل میں لینےکاحق حاصل ہوگا، البتہ اس دوران بچیوں کی ماں نے اگر ایسے شخص سے شادی کرلی جو ان بچیوں کے حق میں نامحرم یعنی اجنبی ہو، تو ماں کا حقِ پرورش ختم ہوجائے گا اور یہ حق بچیوں کی نانی، دادی ، خالہ اور پھوپھی کو بالترتیب حاصل ہوگا، جب کہ بچیوں کا نان ونفقہ ان کی شادی ہوجانے تک باپ( سائل) پر لازم ہے، خواہ بچیاں ماں کی پرورش میں رہیں یا سائل کی تربیت میں رہیں۔
باقی بچیوں کے اپنی ماں کے پاس پرورش کے دوران بھی سائل کو ان سے ملنے حق حاصل ہے، جس کا خرچہ دینا باپ کی ذمہ داری ہے، کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ باپ کو اس کی اولاد سے ملاقات کرنے سے روکے، ایسا کرنے والا شخص گناہ کا مرتکب ہوگا۔
فتح القدیر میں ہے:
"(وإذا أرادت المطلقة أن تخرج بولدها من المصر فليس لها ذلك) لما فيه من الإضرار بالأب."
(كتاب الطلاق، باب الولد من أحق به، ج:4، ص:375، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق."
(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر، ج:1، ص: 541، ط: دار الفكر)
وفيه أيضًا:
"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين. وقال القدوري: حتى يأكل وحدَه، ويشرب وحدَه، ويستنجي وحدَه. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد رحمه الله تعالى: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح، هكذا في التبيين."
(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر، ج:1، ص:542، ط: دار الفكر)
وفيه أيضًا:
"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.
و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع، 1، 562، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101903
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن