بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ذو القعدة 1446ھ 09 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کی درمیان اختلاف کی صورت میں حکم مقرر کیا جائے گا/ اولاد پر کیا ہوا خرچہ بیوی کے مہر سے جدا نہیں کیا جائے گا


سوال

1۔ میرے شوہر نے میری اجازت کے بغیر میراسوناجو چارتولہ حقِ مہر تھابیچ دیا، اس وقت میں میکے گئی ہوئی تھی ، اس نے مجھے فون کیا کہ میں اس کو بیچ کر کاروبار میں پیسے لگاناچاہتا ہوں   تو میں نے کہا کہ نہیں ، میں بیچنا نہیں چاہتی، جب میں گھر آجاؤں گی تو آپ سے بات کروں گی، لیکن اس نے انتظار نہیں کیا اور اپنی مرضی سے میرا حقِ مہر چار تولہ سونا بیچ کر اس کو اپنے دوست کے ساتھ کاروبار میں لگادیا، میں اس کاروبار والے بندے کو نہیں جانتی ، صرف اتنا پتہ ہے کہ اس کا کوئی دوست ہے، اب ہمارے درمیان طلاق کی وجہ سے علیحدگی ہوگئی ہے اور میں اپنے شوہر سے حقِ مہر مانگتی ہوں ، لیکن وہ مجھے چار تولہ سوناحقِ مہر دینے  کے لیے تیار نہیں اورکہہ رہا ہے کہ میں اس کی قیمت جس وقت اس نے بیچا تھا، یعنی 3لاکھ چالیس ہزار روپے صرف وہ واپس دوں گا، جب کہ اس وقت جب یہ بیچ رہاتھا ایک تولہ سونے کی قیمت ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھی ، اب اس نے آپ کے دارالافتاء سے غلط بیانی کرکے فتوی لیا ہے، جو سوال  کے ساتھ منسلک ہے، جس میں اس نے یہ کہاہےکہ : یہ چار تولہ سونا بیوی کے حکم سے فروخت کیا، جب کہ میں منع کرتی رہی کہ نہ بیچو ، اس لیےکہ ہم زیورات  زندگی بھر نہیں بیچتے۔ اور آگے لکھا ہے: یہ رقم تین لاکھ چالیس ہزار بیوی کو لاکردے دیئے ،  یہ بھی جھوٹ ہے ،  مجھے اس نے کوئی رقم نہیں دی، آگے لکھاہے: شوہر نے سونافروخت کرنے کا مشورہ نہیں دیاتھا، یہ جھوٹ ہے اس لیے کہ مجھ سے پوچھے بغیر اس نے یہ سونابیچا تھا۔آگے لکھاہے:تین چار ماہ میرے پاس رقم تھی، جب کہ اس نے مجھے کوئی بھی رقم دی ہی نہیں، آگے کاروبار کے متعلق بھی اوپر لکھا ہواہےکہ مجھے اس شخص کے بارے میں اتنامعلوم ہے کہ اس کادوست ہے اور یہ بھی جھوٹ ہے،شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

2۔ میری عدت کا خرچہ بھی اس نے نہیں دیا جب کہ میں نے مانگا بھی تھا(طلاق کے بعد میں نے اپنی مرضی سے عدت اپنے والدین کے گھر ہی میں گزاری تھی اپنے شوہر کے گھر میں نہیں گزاری)۔

3۔ ہماری تین بیٹیاں ہیں(ایک 7 سال کی ہے اور دوسری چار یا پانچ سال کی ہے اور تیسری گود  کی ہے  جس کی عمر ایک یا ڈیڑھ سال ہے)،  ان  کا نان ونفقہ نہیں دیتا اور مہر کا مطالبہ کروں تو کہتا کہ میں نے طلاق سے پہلے جو خرچہ بچوں پر اور گھر پر کیا ہے وہ سب مہر سے منہا کرکے باقی جتنی رقم بنے گی وہ اداکروں گا، کیا یہ صحیح ہے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے بیان اور اس کے شوہر کی طرف سے لیے گئے فتوے میں دیے گئے بیان میں درج ذیل فرق واضح طور پر معلوم ہوتے ہیں:

شوہر کہتاہے کہ اس نے سونا بیوی کے حکم سے فروخت کیا، جب کہ سائلہ اس کا انکار کرتی ہے۔

شوہر کہتا ہے کہ سونے کی رقم تین لاکھ چالیس ہزار روپے لاکر بیوی کو دیے، جب کہ سائلہ اس کا انکار کرتی ہے۔

شوہر کہتا ہے کہ میں نے سونا فروخت کرنے کا مشورہ نہیں دیا تھا، جب کہ سائلہ اس کا دعوی کرتی ہے۔

شوہر کہتا ہے کہ سونے کی رقم بیوی کے پاس تھی اور پھر شوہر کے مشورے سے بیوی نے وہ رقم شوہر کے دوست کے پَتّی کے کاروبار میں لگادی، جب کہ  سائلہ  اس کا انکار کرتی ہے۔

شوہر کہتا ہے کہ کاروبار سے بیوی کو نفع ملتا تھا، جب کہ سائلہ اس کا انکار کرتی ہے۔

لہذااس اختلافی صورتِ حال میں کوئی حتمی فتوی دینا ممکن نہیں ہے، اس تنازعہ کا حل یہی ہے کہ میاں بیوی کسی ماہر مفتی صاحب کو اپنے درمیان فیصل مقرر کرکے اس کے سامنے اپنا تنازعہ رکھیں اور اپنا اپنا موقف پیش کریں، فیصلہ کرنے والے مفتی صاحب فریقین کے موقف اور گواہیوں کا جائزہ لینے کے بعد جو فیصلہ دیں، اس پر عمل کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تفسيره تصيير غيره حاكما فيكون الحكم فيما بين الخصمين كالقاضي في حق كافة الناس وفي حق غيرهما بمنزلة المصلح، كذا في محيط السرخسي يجب أن يعلم بأن التحكيم جائز وشرط جوازه أن يكون الحكم من أهل الشهادة وقت التحكيم ووقت الحكم أيضا حتى أنه إذا لم يكن أهلا للشهادة وقت التحكيم وصار أهلا للشهادة وقت الحكم بأن كان الحكم عبدا فأعتق أو ذميا فأسلم وحكم لا ينفذ حكمه، وحكم هذا الحكم يفارق حكم القاضي المولى من حيث إن حكم هذا الحكم إنما ينفذ في حق الخصمين ومن رضي بحكمه، ولا يتعدى إلى من لم يرض بحكمه بخلاف القاضي المولى، كذا في الملتقط."

(كتاب أدب القاضي، الباب الرابع والعشرون، ج:3، ص:397، ط: دار إحياء التراث)

2 ۔   سائلہ نے طلاق کے بعد  واقعۃً اگر اپنی مرضی سےاپنے والدین کے گھر پر عدت گزاری تھی اور اس کے شوہر نے اسے مجبور نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں سائلہ کے لیے اس کے شوہر پر کوئی نفقہ لازم  نہیں تھا، لہذا سائلہ کو  اس کے مطالبہ کا حق نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والمعتدة إذا كانت لا تلزم بيت العدة بل تسكن زمانا وتبرز زمانا لا تستحق النفقة كذا في الظهيرية.ولو طلقها، وهي ناشزة فلها أن تعود إلى بيت زوجها، وتأخذ النفقة."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الثالث، ج:1، ص:558، ط: دارالفكر)

3۔ شریعتِ مطہرہ نے بیوی کے لیے اس کے شوہر پر مہر لازم کیا ہے، مہر بیوی کا حق ہوتا ہے جو  بیوی کی طرف سے معاف نہ کرنے کی صورت میں بہر صورت شوہر کو ادا کرنا ضروری ہوتاہے، لہذا سائلہ کے شوہر پر مہر کی مقرر کردہ پوری رقم ادا کرنا ضروری ہے، نیز جو خرچہ سائلہ کے شوہر نے طلاق سے پہلے اپنے بچوں پر کیا وہ اس سے منہا نہیں کیا جائے گا، بلکہ طلاق سے پہلے سائلہ کے شوہرپر بیوی بچوں کا نان نفقہ لازم تھا، اسی طرح طلاق کے بعد بھی  تینوں بیٹیوں کی شادی تک  ان کا نان ونفقہ والد ہی پر لازم ہے، اور شادی کے بعد ان کے شوہروں پر لازم ہوگا، بہرحال  طلاق سے پہلے کیے جانے والے خرچہ کو  مہر کی رقم سے منہا کرنا شوہر کے لیے جائز نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم، أنه قال: من کشف خمار امرأته ونظر إلیها وجب الصداق دخل بها، أو لم یدخل، وهذا نص في الباب. وروي عن زرارة بن أبي أوفى أنه قال: قضى الخلفاء الراشدون المهديون أنه إذا أرخى الستور وأغلق الباب فلها الصداق كاملا، وعليها العدة دخل بها أو لم يدخل بها، وحكى الطحاوي في هذه المسألة إجماع الصحابة من الخلفاء الراشدين وغيرهم؛ ولأن المهر قد وجب بنفس العقد إما في نكاح فيه تسمية فلا شك فيه، وإما في نكاح لا تسمية فيه فلما ذكرنا في مسألة المفوضة إلا أن الوجوب بنفس العقد ثبت موسعا ويتضيق عند المطالبة، والدين المضيق واجب القضاء"

( کتاب النکاح، فصل: بیان مایتأکد به المهر، ج:2، ص:292، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

 

"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق."

 (كتاب الطلاق، الباب السادس عشر، ج:1، ص: 541، ط: دار الفكر)

وفيه أيضاً: 

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع، الفصل الرابع، 1، 562، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512100223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں