بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہندی/خضاب نہ لگانے پر یہودیوں سے مشابہت کی وعید سے متعلق ایک روایت


سوال

سفید بالوں کو مہندی لگا نی چاہیے، جو نہیں لگائے گا وہ یہودیوں سے مشابہت رکھتاہے۔ کیا یہ حدیث سے ثابت ہے؟

جواب

سوال میں آپ نے جو الفاظ ذکر کیے ہیں ،بعینہ یہی الفاظ تو حدیث میں نہیں ہیں ،البتہ اس کے قریب قریب الفاظ مذکورہ ہیں:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بڑھاپے (یعنی بالوں کی سفیدی) کو (خضاب کے ذریعے)بدل ڈالو اوریہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو( کیوں کہ وہ سفید بالوں کو خضاب نہیں لگاتے)۔امام ترمذی رحمہ اللہ مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتےہیں:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ، حسن صحیح ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ"فتح الباري"میں  لکھتے ہیں:

’’خضاب لگانے/ نہ لگانے  کے بارے میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف روایات وارد ہیں ،   اسی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہوا ہے،چنانچہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما وغیرہ  حضرات خضاب لگاتے تھے،جب کہ حضرت علی،ابی بن کعب،سلمہ بن اکوع،انس  رضی اللہ عنہم اور(اِن کے علاوہ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت خضاب نہیں لگاتی تھی۔(حافظ محب الدین ) طبری رحمہ اللہ  نے  ( صحابہ کرام کے مابین  اِن دونوں قسم کی آراء کو) یوں جمع کیا ہے کہ  اُن حضرات میں سے جو رنگتے تھے(یعنی خضاب لگاتے تھے)اُن  کےلیے  مناسب یہی تھا،جیسے کسی شخص کے بالوں کی سفیدی بدنما معلوم ہورہی ہو (تو اُس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اُنہیں خضاب لگائے)،اور جو حضرات نہیں رنگتے تھے(یعنی خضاب نہیں لگاتے تھے) اُن کےلیے   مناسب یہی تھا، جیسے کسی شخص کے بالوں کی سفیدی بدنما معلوم نہ ہورہی ہو (تو اُس کےلیے مناسب  یہی ہے کہ وہ اُنہیں خضاب نہ لگائے)، اسی لیے حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کے سرکے بالوں کو ثغامہ( ایک پہاڑی درخت جس کے پھل اور پھول خوب  سفید ہوتےہیں) کی مانند خوب سفیددیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد:’’اسے بدال ڈالو،مگر (بدلنے میں) سیاہ رنگ سے بچنا‘‘  اسی صورت پر محمول ہے،چنانچہ (آپ کے اس ارشاد کے بعد) لوگ انہیں لے گئے  اور اُن کے بالوں کو سرخ کردیا(یعنی سرخ خضاب لگایا)،لہذا جس شخص  کی حالت(بالوں کی سفیدی میں ) حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کی  حالت کی طرح ہوتو  اس کے لیے  خضاب لگانا مستحب ہے،اور جس کی حالت اُن سے مختلف ہو اُس کے لیے مستحب نہیں۔البتہ مطلقاً (ہر حالت میں )خضاب لگانازیادہ بہتر ہے، کیوں کہ اِس میں  اہلِ کتاب(یہودونصاری)  کی مخالفت  کرنےکے حکم کی بجا آوری ہے،نیز اِس میں بالوں کی غبار وغیرہ سے حفاظت رہتی ہے،تاہم اگر کسی شہر  میں لوگوں کی عادت خضاب نہ لگانے  کی ہو اور کوئی  شخص وہاں خضاب لگانے سےمشہورہوجاتا ہو تو  اُس کے لیے زیادہ بہتر یہی ہے کہ وہ خضاب نہ لگائے‘‘۔

البتہ یہ واضح رہےکہ  خالص سیاہ رنگ کاخضاب لگانےکے بارے میں  احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدآئی ہے،چنانچہ حضرت( عبداللہ )ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:آخری زمانہ میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو کبوتر کے پوٹے کی مانند اِس سیاہی کےذریعے خضاب لگائیں گے(یعنی  جو خضاب استعمال کریں گے وہ ایساہی سیاہ ہوگا جیسے بعض کبوتروں کے پوٹے سیاہ ہوتے ہیں)ایسےلوگ جنت کی بو بھی نہیں پائیں گے۔ صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے جوانی اور طاقت کے اظہار کے لیےفقہاء ِ کرام نےسياه خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی ہے، اس کے علاوہ عام حالات میں خالص سیاہ خضاب لگانا جائزنہیں ہے، البتہ اس کے علاوہ کسی بھی رنگ (مثلاً سرخ ، یاسیاہی مائل رنگ)کاخضاب/مہندی لگاسکتےہیں۔

"سنن الترمذي"میں ہے:

"حدّثنا قُتيبة، قال: حدّثنا أبو عَوانة عن عمر بن أبي سلَمة عن أبيه عن أبي هريرة-رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: غيِّروا الشَّيْب ولا تَشبهَّوا باليهود.

حديثُ أبي هريرة حديثٌ حسنٌ صحيحٌ، وقد رُوي مِن غير وجهٍ عن أبي هريرة عن النبي -صلّى الله عليه وسلّم-".

(سنن الترمذي، أبواب اللباس، باب ماجاء في الخضاب، 3/284، رقم:1752، ط:دار الغرب الإسلامي-بيروت)

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم-: غيِّروا الشَّيْب) : أي بالخضاب (ولا تَشبَّهوا) : حذف إحدى التاءين (باليهود) : أي في ترك خِضاب الشيب".

(مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس، باب الترجل، 7/2829، رقم:4455، ط:دار الفكر،بيروت-لبنان)

"فتح الباري"میں ہے:

"وقد اختلف في الخضْب وترْكه، فخضبَ أبو بكر وعمر وغيرهما كما تقدّم، وتركَ الخضاب عليٌّ وأبيُّ بن كعب وسلمةُ بن الأكوع وأنسٌ وجماعةٌ، وجمع الطبريُّ بأنّ مَن صبغ منهم كان اللائق به كمن يُستشنع شيبُه، ومَن ترك كان اللائق به كمن لا يُستشنع شيبُه، وعلى ذلك حُمل قوله -صلّى الله عليه وسلّم- في حديث جابر الذي أخرجه مسلمٌ في قصة أبي قحُافة حيث قال -صلّى الله عليه وسلّم لما رأى رأسه كأنها الثُّغامة بياضاً: غيِّروا هذا وجنِّبوه السّواد، ومثلُه حديثُ أنسٍ الذي تقدّمت الإشارة إليه أوّل باب ما يُذكر في الشيب، وزاد الطبريُّ وبنُ أبي عاصم مِن وجهٍ آخر عن جابر فذهبوا به فحمَّروه. والثُّغامة -بضم المثلثة وتخفيف المعجمة-: نباتٌ شديدُ البياض زهرُه وثمرُه. قال: فمن كان في مثل حال أبي قحُافة استُحبَّ له الخضاب؛ لأنّه لا يحصل به الغرور لأحدٍ، ومَن كان بِخلافه فلا يُستحبُّ في حقه، ولكن الخضاب مطلقاً أولى؛ لأنّه فيه امتثالُ الأمر في مخالفة أهل الكتاب، وفيه صيانةٌ للشعر عن تعلّق الغبار وغيره به، إلاّ إنْ كان من عادة أهل البلد ترك الصبغ وأن الذي ينفرد بدونهم بذلك يصيرُ في مقام الشهرة فالتركُ في حقه أولى".

(فتح الباري، 10/355، كتاب اللباس، باب الخضاب، ط:دار المعرفة-بيروت)

"سنن النسائي"میں ہے:

"أخبرنا عبد الرحمن بن عبيد الله الحلَبي عن عُبيد الله وهو ابن عمرو عن عبد الكريم عن سعيد بن جُبير عن ابن عباسٍ-رضي الله عنه-، رفعه أنّه قال: قومٌ يخضِبون بهذا السَّواد آخرَ الزمان كحواصل الحمام، لا يَريحون رائحة الجنة".

(سنن النسائي، كتاب الزينة، النهي عن الخضاب بالسود، 8/138، رقم:5075، ط:مكتب المطبوعات الإسلامية-حلب)

"الفتاوى الهندية"میں ہے:

"اتفق المشايخ -رحمهم الله تعالى- أنّ الخِضاب في حق الرجال بالحُمرة سنةٌ وأنّه مِن سِيماء المسلمين وعلاماتِهم. وأمّا الخِضاب بالسّواد فمن فعل ذلك من الغُزاة ليكون أهْيب في عين العدوِّ فهو محمودٌ منه، اتفق عليه المشايخ -رحمهم الله تعالى- ومن فعل ذلك ليُزيّن نفسه للنِساء وليُحبِّب نفسه إليهنّ فذلك مكروهٌ، وعليه عامّة المشايخ، وبعضهم جوّز ذلك من غير كراهةٍ، ورُوي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنّه قال كما يُعجبني أن تتزيِّن لي يُعجبها أن أتزيّن لها كذا في الذخيرة".

(الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية، الباب العشرون في الزينة ... إلخ، 5/359، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200206

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں