بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہینے میں تین دفعہ ماہواری آنے والے خاتون کے لئے نماز روزے کا حکم


سوال

مجھے مہینے میں دو سے تین دفعہ بلیڈنگ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے مجھے اصل حیض کا پتہ نہیں چلتا، تو اس صورت میں نماز، روزے کا کیا حکم ہے؟ اور کیا جب بھی بلیڈنگ ختم ہو اس کے لیے علیحدہ سے غسل فرض ہے؟ اور کیا بلیڈنگ میں ہر نماز کے لیے علیحدہ سے پیڈ تبدیل کرنا ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  شرعاً دو حیضوں کے درمیان پندرہ دن کا فاصلہ ضروری ہے؛ لہذا ایک حیض کے  ختم ہونے کے بعد پندرہ دن سے پہلے دوبارہ خون آنا شروع ہوجائے تو وہ حیض نہیں ہے، استحاضہ یعنی کسی  بیماری کی وجہ  سے آنے والا خون ہے ، اس میں نماز ،روزہ ،تلاوت وغیرہ  پاکی والے تمام اعمال کیے جائیں گے، کسی کا چھوڑنا درست نہیں ہے۔

2: اگر سائلہ کے ایّامِ عادت (حیض کے ایّام) معلوم ہیں، تو ان ایام سے پاک ہونے کے بعد غسل کرنا ضروری ہے، غسل کے بعد نماز/ روزہ وغیرہ پاکی کے اعمال ادا کرسکتی ہے، باقی پندرہ دن سے کم دوبارہ آنے والا خون چوں کہ حیض نہیں ہے، بلکہ استحاضہ (بیماری کا خون) ہے، تو ان ایّام میں نماز پڑھنا روزے وغیرہ جاری رکھے،اور ہر نماز کے داخل ہونے کے وقت وضو کرلیا کریں، غسل کرنا ضروری نہیں ہے، اور اگر سائلہ کے ایّام عادت معلوم نہیں ہے، تو ہر مہینے کے ابتدائی دس دن حیض کے شمار ہوں گے جس میں نماز روزہ رکھنا درست نہیں ہے، اور باقی ایام استحاضہ کے شمار ہوں گے جس میں نماز روزہ رکھنا درست ہے۔

3: استحاضہ (خون کی بیماری) والے ایّام میں چوں کہ پنج وقتہ نمازیں پڑھنا ضروری ہے، تو اس حالت میں ہر نماز کے لئے پیڈ تبدیل کرنا ضروری ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"(وأقل الطهر خمسة عشر يوما) هكذا نقل عن إبراهيم النخعي وأنه لا يعرف إلا توقيفا (ولا غاية لأكثره) لأنه يمتد إلى سنة وسنتين فلا يتقدر بتقدير إلا إذا استمر بها الدم فاحتيج إلى نصب العادة".

(کتاب الطهارۃ، باب الحیض والاستحاضة، ج:1، ص:174، ط: دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وعم كلامه المبتدأة إلخ) قال العلامة البركوي في رسالته المؤلفة في الحيض: المبتدأة من كانت في أول حيض أو نفاس. والمعتادة: من سبق منها دم وطهر صحيحان أو أحدهما. والمضلة وتسمى الضالة والمتحيرة: من نسيت عادتها، ثم قال في الفصل الرابع في الاستمرار: إذا وقع في المبتدأة فحيضها من أول الاستمرار عشرة وطهرها عشرون، ثم ذلك دأبها ونفاسها أربعون ثم عشرون طهرها إذ لا يتوالى نفاس وحيض، ثم عشرة حيضها ثم ذلك دأبها، وإن وقع في المعتادة فطهرها وحيضها ما اعتادت في جميع الأحكام".

(کتاب الصلوۃ، باب الحیض، ج:1، ص:286، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں