مرنے والے نے وصیت کی کہ فلاں آدمی کو میرے جنازے میں شریک نہ ہونے دینا، پھرمرحوم کے ورثاء نے اس مذکورہ بالا شخص کو جنازے سے دھکے مار کر نکال دیا،مذکورہ بالا معاملہ کیا شریعت کی رو سےدرست ہے؟
واضح رہےکسی مسلمان کے جنازے میں شریک ہونا باعث اجرو ثواب ہے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کئی حقوق ہیں،ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، حدیث میں اس پر ایک قیراط ثواب کا ذکر ہے اور جو نماز جنازہ میں شریک ہو اور اس کے بعد تدفین میں بھی شریک ہو وہ دو قیراط ثواب پاتا ہے،چوں کہ یہ استحقاق بندہ کو اللہ کی طرف سے تفویض کردہ ہے، لہٰذا دنیاوی کدورتوں و نزاعات کی بنا پر اس میں کسی کو رکاوٹ بننے کا کوئی اختیار نہیں۔
صورتِ مسئولہ میں موصی(یعنی مرنےوالے) کی اس قسم کی وصیت کہ فلاں اور فلاں میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں ، ناقابل عمل اور اپنے اختیارات کی حدود سے تجاوز کرنا ہے، اورایسی وصیت شرعی طورپرباطل ہے،اسی طرح مرحوم کے ورثاء کا جنازے سے منع کیے ہوئے(شخص) کو دھکے مار کر نکال دینا از روئے شریعت نازیباحرکت تھی، لہٰذا ان تمام ورثاء کو اپنے اس عمل پرفورًا توبہ و استغفار کرنا چاہیے، اور جس کو دھکے مار کر نکال دیا ہے اس شخص سے معافی تلافی کریں،اور ان کی دل جوئی کی فکرکریں۔
قرآن مجید میں ہے:
"﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾."(سورۃ البقرۃ، رقم الآیة: 182)
ترجمہ:"ہاں جس شخص کو وصیت کرنے والے کی جانب سے کسی بےعنوانی یا کسی جرم کے ارتکاب کی تحقیق کی ہوئی ہو پھر یہ شخص ان میں باہم مصالحت کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ واقعی الله تعالیٰ تو (خود گناہوں کے) معاف فرمانے والے ہیں اور (گناہگاروں پر) رحم کرنے والے ہیں ۔"
صحیح مسلم میں ہے:
"عن عبد الله بن عباس، « أنه مات ابن له بقديد، أو بعسفان فقال: يا كريب انظر ما اجتمع له من الناس، قال: فخرجت فإذا ناس قد اجتمعوا له، فأخبرته، فقال: تقول هم أربعون، قال: نعم قال: أخرجوه، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من رجل مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا، إلا شفعهم الله فيه."
(كتاب الجنائز، باب من صلى عليه أربعون شفعوا فيه، ج:3، ص:53، ط:دار الطباعة العامرة)
ترجمہ: "حضرت عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب حضرت عبداللہ بن عباس کے بارہ میں روایت کرتے ہیں کہ مقام قدید یا مقام عسفان میں (کہ جو مکہ کے قریب جگہیں ہیں) ان کے صاحب زادے کا انتقال ہوا (اور جنازہ تیار ہوا) تو انہوں نے کہا: " کریب! جا کر دیکھو کہ نماز جنازہ کے لیے کتنے آدمی جمع ہو گئے ہیں؟ حضرت کریب کہتے ہیں کہ میں (یہ دیکھنے کے لیے) نکلا تو میں نے یہ دیکھا کہ کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں، میں نے واپس آ کر حضرت عبداللہ بن عباس کو بتایا (کہ بہت کافی لوگ جمع ہو گئے ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا : تمہارے خیال میں ان لوگوں کی تعداد چالیس ہو گی؟ میں نے عرض کیا :" ہاں!" حضرت ابن عباس نے فرمایا : تو پھر جنازہ (نماز کے لیے ) باہر نکالو، کیوں کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان مرے اور اس کے جنازہ کی نماز ایسے چالیس آدمی پڑھیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان لوگوں کی شفاعت قبول کرتا ہے۔"
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أبي هريرة يرويه قال: من تبع جنازة، فصلى عليها فله قيراط، ومن تبعها حتى يفرغ منها فله قيراطان، أصغرهما مثل أحد أو أحدهما مثل أحد."
(كتاب الجنائز، باب فضل الصلاة على الجنائز وتشييعها، ج:3، ص:175، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)
ترجمہ : "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جنازہ کے ساتھ چلا اور اس پر نماز پڑھی تو اس کو ایک قیراط کے برابر ثواب ملے گا اور جو شخص میت کی تدفین تک جنازہ کے ساتھ رہا تو اس کو دو قیراط کے برابر ثواب ملے گا۔ اور یہ قیراط ایسے ہیں کہ ان میں سے چھوٹا قیراط بھی احد پہاڑ جیسا ہے۔"
فتاوٰی شامی میں ہے:
"أوصى بأن يصلي عليه فلان أو يحمل بعد موته إلى بلد آخر أو يكفن في ثوب كذا أو يطين قبره أو يضرب على قبره قبة أو لمن يقرأ عند قبره شيئا معينا فهي باطلة."
(كتاب الوصايا، ج:6، ص:666، ط: سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وفي الكبرى الميت إذا أوصى بأن يصلي عليه فلان فالوصية باطلة وعليه الفتوى، كذا في المضمرات."
(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاة على الميت، ج:1، ص:163، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144503101351
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن