بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک سے گھر لینا کیسا ہے؟


سوال

کیا کسی اسلامی بینک سے گھر لے سکتے ہیں؟ درج ذیل میزان بینک کی طرف سے ہے اس کو دیکھ کر بتائیں کہ یہ صحیح ہے؟ ایزی ہوم آپ کے گھر کی مالی ضروریات کے لیے مکمل طور پر سود سے پاک (ربا) حل ہے۔ روایتی ہاؤس لون کے برعکس، میزان بینک کا ایزی ہوم کم ہوتے مشارکہ کے ذریعے کام کرتا ہے جہاں آپ میزان بینک کے ساتھ اپنی جائیداد کی مشترکہ ملکیت میں حصہ لیتے ہیں۔ معاہدے کی نوعیت شریک ملکیت ہے نہ کہ قرض۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لین دین قرض دینے اور قرض لینے پر نہیں بلکہ مکان کی مشترکہ ملکیت پر مبنی ہے۔ میزان بینک، اس طرح خریدے جانے والے گھر کی قیمت شیئر کرتا ہے۔ مشترکہ ملکیت بنانا اور پھر دھیرے دھیرے صارف کو صرف رقم دینے کے بجائے ملکیت منتقل کرنا وہ اہم عنصر ہے جو ایزی ہوم کو شریعت کے مطابق بناتا ہے۔ ایزی ہوم کے ساتھ آپ میزان بینک کے ساتھ اپنی جائیداد کی مشترکہ ملکیت میں حصہ لیتے ہیں، جہاں بینک ایک خاص رقم فراہم کرے گا۔ آپ بینک کو ماہانہ ادائیگی سے اتفاق کرتے ہیں جس کا ایک حصہ گھر کا کرایہ ہے اور دوسرا حصہ آپ کے ایکویٹی کے لیے۔ درحقیقت، جائیداد میں آپ کا حصہ بڑھنے کے ساتھ ہی کل ماہانہ ادائیگی باقاعدگی سے کم ہو جاتی ہے۔ جب آپ مکمل سرمایہ کاری کر لیتے ہیں، جس پر اتفاق کیا گیا تھا، آپ جائیداد کے واضح عنوان کے ساتھ واحد مالک بن جاتے ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں میزان بینک سمیت کسی بھی مروجہ اسلامی بینک  سے قسطوں پر  گھر وغیرہ لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ مروجہ  بینکوں کا گھر دینے کا معاملہ مکمل شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، بلکہ اس معاملہ میں متعدد شرعی احکام کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً: مروجہ اسلامی بینکوں  سے گھر خریدتے وقت دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں، ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں گھر کی مد میں ادائیگی کی رقم خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے مکان کا  کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد صورۃً یا حکمًا ایک ساتھ  ہی کیے  جاتے ہیں جو شرعی طور پر ممنوع ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک دیکھیے:

مختلف بینکوں یا اداروں سے سودی قرضہ لے کر یا شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کا معاملہ کر کے ذاتی گھر لینے کا حکم

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذی میں ہے:

"(قوله: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة) أي صفقة واحدة و عقد واحد ويأتي تفسير هذا عن المصنف.(قوله: و قد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين و لايفارقه على أحد البيعين) قال في شرح السنة بعد ذكر هذا التفسير: هو فاسد عند أكثر أهل العلم؛ لأنه لايدرى أيهما جعل الثمن، انتهى. وقال في النيل: و العلة في تحريم بيعتين في بيعة عدم استقرار الثمن في صورة بيع الشيء الواحد بثمنين انتهى.  (فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على واحد منهما) بأن قال البائع: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين، فقال المشتري: اشتريته بنقد بعشرة ثم نقد عشرة دراهم فقد صح هذا البيع وكذلك إذا قال المشتري اشتريته بنسيئة بعشرين وفارق البائع على هذا صح البيع لأنه لم يفارقه على إيهام وعدم استقرار الثمن بل فارقه على واحد معين منهما وهذا التفسير قد رواه الإمام أحمد في روايته عن سماك ففي المنتقى عن سماك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة، قال سماك: هو الرجل يبيع البيع فيقول هو بنسأ بكذا وهو بنقد بكذا وكذا قال الشوكاني في النيل، قوله: من باع بيعتين في بيعة فسره سماك بما رواه المصنف يعني صاحب المنتقى عن أحمد عنه وقد وافقه على مثل ذلك الشافعي فقال بأن يقول: بعتك بألف نقدًا أو ألفين إلى سنة فخذ أيهما شئت أنت وشئت أنا ونقل بن الرفعة عن القاضي أن المسألة مفروضة على أنه قبل على الإبهام أما لو قال قبلت بألف نقد أو بألفين بالنسيئة صح ذلك انتهى.

واعلم أنه قد فسر البيعتان في بيعة بتفسير آخر وهو أن يسلفه دينارًا في قفيز حنطة إلى شهر فلما حلّ الأجل و طالبه بالحنطة قال: بعني القفيز الذي لك علي إلى شهرين بقفيزين فصار ذلك بيعتين في بيعة؛ لأنّ البيع الثاني قد دخل على الأول فيرد إليه أو كسهما و هو الأول كذا في شرح السنن لابن رسلان فقد فسر حديث أبي هريرة المذكور بلفظ نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة بثلاثة تفاسير فاحفظها."

(باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة، ج: ۴، صفحہ: ۳۵۷، ط: دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144507102240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں