بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان یا کسی بھی بینک میں حفاظت کے لیے رقم رکھنا اوراس پر نفع کمانا


سوال

میرے ایک رشتہ دار جو کہ باہر ملک میں مقیم ہیں،انہوں نے میرے پاس کچھ لاکھ روپے رکھوائے ہوئے ہیں،اور انہوں نے مجھے اجازت دی ہےکہ وہ پیسےآپ اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں،تو جب مجھے ضرورت ہوگی وقتاً فوقتاًمیں لیتا رہوں گا، اگر میں اس کو میزان بینک یا کسی اسلامی بینک کے اکاؤنٹ میں رکھ کے نفع حاصل کروں تو  جائز ہوگا یا نہیں؟کیوں کہ سب سے محفوظ سرمایہ کاری بینک کی ہی لگتی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے کسی بھی بینک میں ضرورت کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ کھلواکر  حفاظت کی خاطراس میں رقم رکھوانا جائز ہے، البتہ نفع کے حصول کے لیےکسی بھی بینک میں (میزان بینک ہو یا  بینک اسلامی یا کسی بھی مروجہ غیر سودی بینکوں) سیونگ  اکاؤنٹ یا کسی اور نام سے بینک میں اکاؤنٹ کھلواکر رقم رکھ کر اس پر نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ سود ہے،اور سود کا لینا دینا حرام ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء."

(كتاب البيوع، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ج:5، ص:50، ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضوراکرمﷺ نے سود کھانے والے، اور کھلانے والے اور (سودکاحساب) لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے،اور فرمایا: کہ وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"

الأشباه والنظائرمیں ہے:

"الأولى: الضرورات تبيح المحظورات .... الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها."

(الفن الأول :القواعدالكلية، ص:137، ط: دارالكتب، پشاور)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وإن كانا مما لايتعين فعلى أربعة أوجه: فإن أشار إليها ونقدها فكذلك يتصدق (وإن أشار إليها ونقد غيرها أو) أشار (إلى غيرها) ونقدها (أو أطلق) ولم يشر (ونقدها لا) يتصدق في الصور الثلاث عند الكرخي قيل: (وبه يفتى) والمختار أنه لايحلّ مطلقًا، كذا في الملتقى. و لو بعد الضمان هو الصحيح، كما في فتاوى النوازل. و اختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام، و هذا كله على قولهما."

(‌‌كتاب الغصب، مطلب في رد المغصوب وفيما لو أبى المالك قبوله، ج:6، ص:189، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"‌قوله ‌الحرام ‌ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك."

(كتاب البيوع، ‌‌باب البيع الفاسد، مطلب رد المشترى فاسدا إلى بائعه فلم يقبله، ج:5، ص:98، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144504100050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں