بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میزان بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا کیوں ناجائز ہے؟


سوال

میزان بینک کا  یہ دعوی  ہے کہ وہ اپنے ڈیپازٹرز کی رقوم کو مضاربت و مشارکت کے طور پر لیتا ہے اور ان کے ہاں یہ اس بات کا خیال کیا جاتا ہے، تو وہاں پر اکاؤنٹ کھلوانا خاص طور پر سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا جائز کیوں نہیں ہے؟

جواب

مروجہ اسلامی بینکاری کوسودی نظام کاحصہ قراردینے اورعدمِ جوازکی بنیادی طورپردووجوہات ہیں:

1- مروجہ اسلامی بینکاری کے لیے جوفقہی بنیادیں جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں عملی طورپرمروجہ اسلامی بینکاری کانظام ان فراہم کردہ بنیادوں پرنہیں چل رہا، جس کی وجہ سے روایتی بینکاری اورمروجہ اسلامی بینکاری میں کوئی فرق اورخاص امتیاز نہیں رہا۔

2- دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ جن فقہی بنیادوں پر مذکورہ نظام کوقائم کیاگیا وہ بنیادیں اوراصطلاحات بھی سقم سے خالی نہیں ہیں،کئی فقہی اصطلاحات میں قطع و بریدکی گئی ضعیف اور مرجوح اقوال پر اعتماد و انحصار کیا گیا بغیر ضرورت  مذہبِ  غیرکی جانب جانے کومباح سمجھاگیاوغیرہ۔

اس لیے  مروجہ اسلامی بینکوں کے جتنے بھی تمویلی طریقے ہیں وہ سب ناجائز ہیں،  یعنی بینک جو عقود کر کے پیسہ کماتا ہے اور  پھر اس پیسے میں سے اپنے صارف ( سیونگ اکاؤنٹ والے) کو نفع دیتا ہے وہ تمام عقود شرعی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں، لہٰذا جب مروجہ اسلامی بینکوں  کی کمائی ناجائز ہے تو  ان بینکوں میں سیونگ اکاؤنٹ کھول کر اس ناجائز کمائی میں بینک کا شریک بننا بھی ناجائز ہوگا۔

نیز خود صارف  (سیونگ اکاؤنٹ کھولنے والے) اور مروجہ اسلامی بینکوں کے درمیان ہونے والے مضاربت کے عقد پر بھی بہت سے اشکالات ہیں، مثلاً بینک کا عملی طور پر رب المال کو نقصان نہ ہونے کی ضمانت دینا، اورنقصان ہونے کی صورت میں بجائے نفع یا رب المال کے سرمائے (رأس المال) سے کٹوتی کرنے کے  ہدیہ کے نام سے رب المال کے سرمائے کو محفوظ بنانا، جیسا کہ سودی بینکوں میں سیونگ اکاؤنٹ والوں کا سرمایا محفوظ ہوتا ہے، حال آں کہ مضاربت میں نقصان کی صورت میں نقصان اولاً نفع سے اور پھر رأس المال سے پورا کیا جاتا ہے، مضارب اپنی جیب سے نقصان پورا نہیں کرتا۔

مزید تفصیل کے لیے اس موضوع پر لکھی گئی ہمارے ادارے کی کتاب ’’مروجہ اسلامی بینکاری‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں