بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کمیٹی کا شرعی حکم


سوال

آج کل ہمارے علاقہ میں عا م طور پر ایک کمیٹی یا تنظیم ہوتی ہے جو کہ خانہ میت اور دوردراز سےنماز جنازہ یا تعزیت کے لئے آئے ہو ئے مہمانوں کے لئے کھانا تیا ر کرتی ہےتو ان کی ترتیب دو قسم پر ہوتی ہیں ایک یہ کہ پہلے سے ایک خا ص ترتیب پر رقم اکھٹے کرتے ہیں پھر جس گھر میں فوتگی ہو جاتی ہے تو اس رقم سے ان کے لئے کھانہ تیا ر کیا جاتا ہے، اور دوسری قسم یہ ہے کہ جب فوتگی ہو جاتی ہے تو ایک آدمی کے ذمہ یہ کام لگا یا جاتا ہے کہ خانہ میت اور دوسرےمہمان جو تعزیت کے لئے آتے ہیں تو ان کے لئے کھاناتیا ر کرتا ہے اور یہ سلسلہ تین دنوں تک جاری رہتا ہے پھر اس تنظیم اور کمیٹی میں جتنے لو گ شریک ہو تے ہیں تو خانہ میت کو نکال کر با قیوں پر یہ کل خرچہ تقسیم کیا جاتا ہے اور وصول کیا جاتا ہے توکیا مذکورہ صورتیں جا ئز ہیں ؟

جواب

میت کی تجہیز و تکفین کے لیے قائم کمیٹیوں کی شرعی حیثیت کی تفصیل درج ذیل ہے:

آج کل مختلف مقامات پر خاندان اور برادری میں میت کمیٹیاں بنانے کا رواج چل پڑا ہے، اس کمیٹی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کمیٹی کے کسی ممبر کے گھر میں اگر موت کا سانحہ پیش آجائے تو اس کی تجہیزوتکفین کا خرچہ برداشت کیا جائے، نیز میت کے گھر والوں اور تعزیت کے لیے آئے مہمانوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرنا بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داری شمار ہوتی ہے، اس کمیٹی کا ممبر صرف ایک  خاندان یا برادری یا محلے کے لوگوں کو بنایا جاتا ہے، ممبر بننے کے لیے شرائط ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ ہر ماہ یا ہر سال ایک مخصوص مقدار میں رقم جمع کرانا لازم ہے، اگر یہ رقم جمع نہ کرائی جائے تو ممبر شپ ختم کردی جاتی ہے، جس کے بعد وہ شخص کمیٹی کی سہولیات سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، عام طور پر یہ کمیٹیاں دو طرح کے اخراجات برداشت کرتی ہیں:

1:…کفن و دفن کے اخراجات، یعنی کفن، قبرستان تک لے جانے کے لیے گاڑی اور قبر وغیرہ کا خرچہ۔

2:…میت کے اہلِ خانہ اور مہمانوں کے کھانے کا خرچہ۔

شرعی نکتہ نگاہ سے ان دونوں طرح کے اخراجات میں حسبِ ذیل تفصیل ہے:

میت کی تجہیز و تکفین کا خرچہجب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کے اخراجات کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میت کا ذاتی مال موجود ہوتو اس کے کفن دفن کا خرچہ اسی میں سے کیا جائے گا۔(۱) اگر اس کے ترکہ میں مال موجود نہیں تو اس کے یہ اخراجات اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس پر اس کی زندگی میں مرحوم کا خرچہ واجب تھا، لہٰذا اگر میت کا باپ اور بیٹا دونوں زندہ ہوں تو کفن و دفن کے اخراجات بیٹے کے ذمہ ہوں گے، کیوں کہ جب کسی شخص کے پاس کوئی مال نہ ہواور اس کا باپ اور بیٹا دونوں موجود ہوں تواس کے اخراجاتِ زندگی بیٹے پر واجب ہوتے ہیں ،باپ پر نہیں،(۲) بیوی کا کفن دفن شوہر کے ذمہ لازم ہوتا ہے، اگرچہ اس کے پاس مال موجود ہو۔ (۳)

اگر میت کے پس ماندگان میں ایسا کوئی شخص نہ ہو جس پر اس کا خرچہ واجب ہوتا ہے یا ایسا کوئی فرد موجود ہو، لیکن وہ خود اتنا غریب ہو کہ یہ خرچہ برداشت نہیں کرسکے تو تکفین و تدفین کی ذمہ داری حکومتِ وقت کی ہے، لیکن اگر حکومتِ وقت یہ خرچہ نہیں اُٹھاتی یا ان کے نظم میں ایسی کوئی صورت نہ ہو تو جن مسلمانوں کو اس کی موت کا علم ہے، ان پر اس کی تکفین و تدفین کا خرچہ واجب ہے، اگر جاننے والے بھی سب غریب ہیں تو پھر وہ لوگوں سے چندہ کرکے یہ اخراجات برداشت کریں اور جو رقم باقی بچے وہ دینے والے کو واپس کریں، اگردینے والے کا علم نہ ہو تو اس رقم کو سنبھال کر رکھیں، اور اگر دوبارہ اس طرح کی صورتِ حال پیش آئے تو اس کی تکفین و تدفین میں اُسے خرچ کریں۔ (۴)

میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام میت کے رشتہ داروں اور ہم سایوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام کریں، کیوں کہ میت کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہونے اور تجہیز و تکفین میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کا انتظام نہیں کرپاتے،(۵) غزوۂ موتہ میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور ان کی وفات کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرو ،کیوں کہ ان پرایسا شدید صدمہ آن پڑا ہے جس نے انہیں(دیگر اُمور سے )مشغول کردیا ہے۔ (۶)

میت کے اہل خانہ کے علاوہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں اگر وہ بھی کھانے میں شریک ہوجائیں تو ان کا شریک ہونا  بھی درست ہے، تاہم تعزیت کے لیے قرب و جوار سے آئے لوگوں کے لیے میت کے ہاں باقاعدہ کھانے کا انتظام کرناخلافِ سنت عمل ہے۔(۷)

مروجہ انجمنوں اور کمیٹیوں کے بظاہر نیک اور ہم دردانہ مقاصد سے ہٹ کر کئی شرعی قباحتیں ہیں:

1:… کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب، ہر ماہ ایک مخصوص رقم کمیٹی میں جمع کرے،اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا)کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

2:…کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادارلوگ بھی ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت واستطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال ہے۔

3:… بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے غمگین موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

4:… اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے، حال آں کہ مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کسی کے ہاں میت ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ میت کے عزیز و اقارب و پڑوسی مل کر میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کریں، میت کی تجہیزو تکفین کے خرچہ کے لیے دیکھا جائے کہ اگر میت نے کچھ مال چھوڑا ہے توتجہیز و تکفین کا خرچہ اس کے مال میں سے کیا جائے اور اگر میت نے کسی قسم کا مال نہیں چھوڑا توجس شخص پر اس کا خرچہ واجب ہے، وہ یہ اخراجات برداشت کرے، اگر وہ نہیں کرپاتا تو خاندان کے مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ یہ اخراجات اپنے ذمے لے لیں، مروجہ کمیٹیوں کے قیام میں شرعاً کئی قباحتیں ہیں، اس سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا أحمد بن منیع وعلي بن حجر قالا: حدثنا سفیان بن عیینة عن جعفر بن خالد عن أبیه عن عبد اللّٰه بن جعفر قال : لما جاء نعي جعفر قال النبي صلی اللّٰه علیه وسلم: اصنعوا لأهل جعفر طعاماً فإنه قد جاء هم ما یشغلهم. قال أبو عیسی: هذا حدیث حسن صحیح، وقد کان بعض أهل العلم یستحب أن یوجه إلی أهل المیت شيء لشغلهم بالمصیبة وهو قول الشافعي. قال أبو عیسی: و جعفر بن خالد هو ابن سارة وهو ثقة روی عنه ابن جریج".

(سنن الترمذي، أبواب الجنائز، باب ما جاء في الطعام یصنع لأهل المیت، ج:3، صفحہ:314، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وکفن من لا مال له علٰی من تجب علیه نفقته) فإن تعددوا فعلی قدر میراثهم. و في الرد: (قوله: فعلی قدر میراثهم ) کما کانت النفقة واجبة علیهم فتح، أی فإنها علی قدر المیراث فلو له أخ لأم وأخ شقیق فعلی الأول السدس والباقي علی الشقیق. أقول: ومقتضی اعتبار الکفن بالنفقة أنه لو کان له ابن وبنت کان علیهما سویة کالنفقة إذ لایعتبر المیراث في النفقة الواجبة علی الفرع لأصله ولذا لو کان له ابن مسلم وابن کافر فهي علیهما ومقتضاه أیضاً أنه لو کان للمیت أب وابن کفنه الابن دون الأب کما في النفقة علی التفاصیل الآتیة في بابها إن شاء اللّٰه تعالی".

(کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج: ۲، صفحہ: ۲۰۵ و۲۰۶، ط: ایچ، ایم سعید)

وفیہ ایضاً:

"تنبیه: قال في الحلیة ینبغي أن یکون محل الخلاف ما إذا لم یقم بها مانع یمنع الوجوب علیه حالة الموت من نشوزها أو صغرها ونحو ذلک الخ وهو وجیه لأنه إذا اعتبر لزوم الکفن بلزوم النفقة سقط بما یسقطها. ثم اعلم أن الواجب علیه تکفینها وتجهیزها الشرعیان من کفن السنة أو الکفایة وحنوط وأجرة غسل وحمل ودفن دون ما ابتدع في زماننا من مهللین وقراء ومغنین وطعام ثلاثة أیام ونحو ذلک، ومن فعل ذلک بدون رضا بقیة الورثة البالغین یضمنه في ماله .… (وإن لم یکن ثمة من تجب علیه نفقته ففي بیت المال فإن لم یکن) بیت المال معموراً أو منتظماً (فعلی المسلمین تکفینه ) فإن لم یقدروا سألوا الناس له ثوباً فإن فضل شیء رد للمصدق إن علم وإلا کفن به مثله وإلا تصدق به، مجتبی. وظاهره أنه لایجب علیهم إلا سؤال کفن الضرورة لا الکفایة ولو کان في مکان لیس فیه إلا واحد وذلک الواحد لیس له إلا ثوب لایلزمه تکفینه به. و في الرد: (قوله:فإن لم یکن بیت المال معموراً ) أی بأن لم یکن فیه شيء أو منتظماً أي مستقیمًا بأن کان عامراً ولایصرف مصارفه ط، (قوله: فعلی المسلمین ) أي العالمین به وهو فرض کفایة یأثم بترکه جمیع من علم به، ط ، (قوله: فإن لم یقدروا ) أي من علم منهم بأن کانوا فقراء، (قوله: وإلا کفن به مثله ) هذا لم یذکره في المجتبی، بل زاده علیه في البحر عن التنجیس و الواقعات، قلت: وفي مختارات النوازل لصاحب الهدایة: فقیر مات فجمع من الناس الدراہم وکفنون وفضل شیء إن عرف صاحبه یرد علیه وإلا یصرف إلى کفن فقیر آخر أو یتصدق به".

(کتاب الصلاة، باب الجنائز، ج: ۲، ص: ۲۰۵و۲۰۶، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضا:

"ولا بأس باتخاذ طعام لهم. و في الرد: (قوله: وباتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم".

( کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:۲، صفحہ:۲۴۰، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً:

"(یبدأ من ترکة المیت  بتجهیزه)  یعم التکفین (من غیر تقتیر ولا تبذیر ) ککفن السنة أو قدر ما کان یلبسه في حیاته".

(کتاب الفرائض،ج: 6،ص:۷۵۹ ، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں