بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی میں جدائی ڈال کر خود نکاح کرنے کا حکم


سوال

 عائشہ کا نکاح اس کے والدین نے بکر سے کرا یا، چوں کہ عائشہ کا نکاح کراتے ہوئے والدین نے اس کی رائے معلوم نہیں کی تھی، والدین کے کہنے پرنکاح تو کرلیا، لیکن وہ بکر کے ساتھ  نکاح سے خوش نہیں تھی اور ابھی تک عائشہ کی رخصتی بھی نہیں ہوئی ہے، اب ایک تیسرے آدمی  خالد نے  عائشہ کے کہنے پر اُن دونوں کے درمیان تعویذ ، ٹوٹکے یا کسی عامل وغیرہ کے ذریعے  جدائی ڈال دی اور اس طرح عائشہ کے سابقہ شوہر نے عائشہ کو رخصتی سے پہلے طلاق دے دی، اب  مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1۔ کیا جادو یا تعویذ وغیرہ کے ذریعے میاں بیوی میں جدائی ڈالنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو اس گناہ کا کیا کفارہ ہے؟

2۔عائشہ کے کہنے پر خالد کا عائشہ کو سابقہ شوہر سے طلاق دلانے کے بعد کیا اب خالد اور عائشہ دونوں کا  ایک دوسرے سے  نکاح ہوسکتا ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا، یا جدائی ڈالنے کی کسی بھی طرح کوشش کرنا بہت سنگین گناہ ہے، اگر واقعۃً خالد نے عائشہ اور اُس کے سابقہ شوہر کے درمیان جادو یا تعویذ وغیرہ کے ذریعے جدائی ڈالی ہے تو یہ اُس نے بہت سنگین گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس گناہ پر نادم ہوکر اللہ کے حضور سچے دل سے توبہ تائب ہوجائے، ورنہ آخرت میں بڑے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

2۔ خالد کا عائشہ کو اُس کے سابقہ شوہر سے جادو یا تعویذ وغیرہ کے ذریعے طلاق دلانا تو جائز نہیں تھا، بلکہ یہ بہت بڑے گناہ کا کام  تھا، البتہ اب جب عائشہ کو اُس کے سابقہ شوہر نے طلاق دے دی ہے تو خالد اور عائشہ دونوں اگر آپس میں باہمی خوشی ورضامندی سے نکاح کرلیتے ہیں تو اُن کا نکاح منعقد ہوجائے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰي مُلْكِ سُلَيْمٰنَ ۚ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ۤوَمَآ اُنْزِلَ عَلَي الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ۭ وَمَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۭ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهٖ ۭ وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ ۭ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰه مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ڜ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖٓ اَنْفُسَھُمْ ۭ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ." (البقرة: 102)

ترجمہ:" اور انہوں نے  ایسی چیز کا (یعنی سحر کا) اتباع کیا جس کا چرچا کیا کرتے تھے شیاطین (یعنی خبیث جن) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد سلطنت میں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام نے) کفر نہیں کیا ،  مگر (ہاں) شیاطین کفر کیا کرتے تھے اور حالت یہ تھی کہ آدمیوں کو بھی (اس) سحر کی تعلیم کیا کرتے تھے۔ اور اس (سحر) کا بھی جو کہ ان دونوں فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا شہربابل میں جن کا نام ہاروت و ماروت تھا، اور وہ دونوں کسی کو نہ بتلاتے جب تک یہ (نہ) کہہ دیتے کہ ہمارا وجود بھی ایک امتحان ہے سو تو کہیں کافر مت بن جائیو (کہ اس میں پھنس جاوے) سو (بعضے) لوگ ان دونوں سے اس قسم کا سحر سیکھ لیتے تھے جس کے ذریعہ سے (عمل کر کے) کسی مرد اور اس کی بیوی میں تفریق پیدا کردیتے تھے اور یہ (ساحر) لوگ اس کے ذریعہ سے کسی کو بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر خدا ہی کے (تقدیری) حکم سے اور ایسی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جو (خود) ان کو ضرر رساں ہیں اور ضرور یہ (یہودی) بھی اتناجانتے ہیں کہ جو شخص اس کو اختیار کرے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ (باقی) نہیں اور بیشک بری ہے وہ چیز (یعنی سحرو کفر) جس میں وہ لوگ اپنی جان دے رہے ہیں کاش ان کو (اتنی) عقل ہوتی۔"(بیان القران)

مسند احمد میں ہے:

"عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌إن ‌إبليس يضع عرشه على الماء، ثم يبعث سراياه، فأدناهم منه منزلة أعظمهم فتنة، يجيء أحدهم، فيقول: فعلت كذا وكذا، فيقول: ما صنعت شيئا، قال: ويجيء أحدهم، فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين أهله، قال: فيدنيه منه - أو قال: فيلتزمه - ويقول: نعم أنت أنت." 

‌‌(‌‌مسند جابر بن عبد الله رضي الله عنه، 275/22، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے ،پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے ،پس اُس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں ان سے بڑا ہو ،اُن میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا ،تو شیطان کہتا ہے تو نے کوئی (بڑا ) کام سر انجام نہیں دیا ،پھر اُن میں سے ایک (اور) آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے (فلاں آدمی) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈال دی ،شیطان اسے اپنے قریب کر کے یااپنے ساتھ چمٹاکرکہتا ہے کہ :ہاں !تو ہے(جس نے بڑا کام کیا ہے) ۔"

معارف القران میں ہے:

"مسئلہ:اگر قرآن وحدیث کے کلمات ہی سے کام لیا جائے، مگر ناجائز مقصد کے لیے استعمال کرے تو وہ بھی جائز نہیں ہے،مثلاً: کسی کو ناحق ضرر  پہنچانے کے لیے کوئی تعویذ کیا جائے یا وظیفہ پڑھا جائے، اگرچہ وظیفہ اسماء الٰہیہ یا آیات قرآنیہ ہی کا ہو، وہ بھی حرام ہے۔"

(معارف القران، 1/280، ط: مکتبہ معارف القران)

مقدمۂ شامی میں ہے:

"السحر حق عندنا وجوده وتصوره وأثره. وفي ذخيرة الناظر تعلمه فرض لرد ساحر أهل الحرب، وحرام ‌ليفرق ‌به بين المرأة وزوجها، وجائز ليوفق بينهما. اهـ."

(ردالمحتار، 1/44، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"(وأما ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي والإيجاب ما يتلفظ به أولا من أي جانب كان والقبول جوابه هكذا في العناية .....(وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد .....(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام. فلا ينعقد بحضرة العبيد ولا فرق بين القن والمدبر والمكاتب ولا بحضرة المجانين والصبيان ولا بحضرة الكفار في نكاح المسلمين هكذا في البحر الرائق ....... ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، 267/1، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100856

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں