مٹھائی، کھجور یا کوئی بھی چیز جو وزن کر کے بیچی جاتی ہو ،اس کو ڈبے سمیت وزن کرنے کا حکم مطلوب ہے۔
سوال یہ ہےکہ اس ڈبے کا اپنا وزن کتنا رکھا جائے ؟ ڈبہ تو مجبوراًدیا جارہا ہے،اس لیےکہ تھیلی میں وہ شئ نہیں دی جاسکتی ،اب ڈبے کا وزن عرف میں کوئی مقرر نہیں ، ہر مٹھائی والے کا اپنا عرف ہے، پھر کوئی ڈھکن کے ساتھ وزن کرتا ہے اور کوئی ڈھکن کے بغیر، پھر ڈبے کا وزن کوئی 200گرام رکھتا ہے تو کوئی 300گرام ،حالانکہ وہی شئ کم وزن والے ڈبے میں بھی دی جاسکتی ہے، مگر نہیں دی جارہی ،کیا یہ ناپ تول میں کمی نہیں ،کہ شرعی اجازت اور عرف کو آڑ بنا کر اشیاء کو کم کرکے بیچا جارہا ہے؟
اس طرح کی پیکنگ میں بلا شبہ عرفی تسامحات کی بناء پر شریعت بھی تسامح کرتی ہے۔البتہ ہر مارکیٹ کے بااَثر ذمہ داروں کو اور فوڈ اتھارٹیز کو چاہیے کہ وہ بیچی جانے والی چیز کی پوری مقدار دلانے کے لیے ضابطے بنائیں،ڈبہ کا وزن متعین کروائیں،یا فروخت سے پہلے ڈبے کا الگ سے وزن کر کے بیچی جانے والی چیزوں کی مطلوبہ مبینہ مقدار پورا ادا کرنے کا اہتمام کروائیں۔
ہدایہ میں ہے:
قال: "والأعواض المشار إليها لا يحتاج إلى معرفة مقدارها في جواز البيع" لأن بالإشارة كفاية في التعريف وجهالة الوصف فيه لا تفضي إلى المنازعة."
(كتاب البيوع، كيفية انعقاد البيع، ج:3، ص:23۔24، ط:دار إحياء التراث العربي۔بيروت)
وفيه ايضا:
"قال: ويجوز بإناء بعينه لا يعرف مقداره وبوزن حجر بعينه لا يعرف مقداره"؛ لأن الجهالة لا تفضي إلى المنازعة لما أنه يتعجل فيه التسليم فيندر هلاكه قبله بخلاف السلم؛ لأن التسليم فيه متأخر والهلاك ليس بنادر قبله فتتحقق المنازعة."
(كتاب البيوع، كيفية انعقاد البيع، ج:3، ص:24، ط:دار إحياء التراث العربي۔بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407102044
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن