بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میسنجر پر بیوی کے ان بکس میں جاکر طلاق دینا


سوال

۱۔ اگر کسی نے اپنی زوجہ کے ساتھ فیس بک میسنجر میں لکھ لکھ کہ جھگڑے کیے اور اس جھگڑے کے دوران زوجہ کو صرف ڈرانے کی نیت سے بغیر کسی اضافت طلاق،طلاق،طلاق (یعنی ایک ہی مسیج میں تین مر تبہ) لکھ دیا، تو کیا اس سے طلاق واقع ہو جائے گی؟

خصوصی نوٹ: شوہر نے یہ صرف ڈرانے کے لیے لکھا تھا اور طلاق کی نیت بالکل نہیں تھی۔

۲۔ میسنجر ميں بیوی کے انبکس میں جاکر بغیر اضافت مطلقاً طلاق طلاق طلاق لکھنا مرسومہ میں شمار ہوگا یا غیر مرسومہ میں؟ دلیل کی روشنی میں جواب کی طلب گار ہوں۔

جواب

۱۔ واضح رہے کہ جس طرح زبان سے طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اسی طرح کسی چیز پر  لکھ دینے یا میسج میں لکھ کر بھیجنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں شوہر نے جھگڑے کے دوران اپنی بیوی کو فیس بک میسنجر پر ایک ہی میسج میں ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ لکھ کر بھیجا تو اس سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، اگرچہ شوہر کی طلاق دینے کی نیت نہ تھی، اس لیے کہ یہ طلاق کے صریح الفاظ ہیں اور صریح الفاظ سے بغیر نیت کیے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اب دونوں کا نکاح ختم ہو گیا ہے، اور رجوع بھی نہیں ہوسکتا، مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

۲۔ میسنجر کے ذریعے میسج پر لکھ کر اپنی بیوی کو طلاق دینا مرسومہ شمار ہوگا، اس لیے کہ جب میسنجر کے ذریعے میسج کیا جاتا ہے تو انبکس میں تمام تفصیلات پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌كتب ‌الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا.

وفي حاشيته: (قوله ‌كتب ‌الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة، ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب. وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته. وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكنه فهمه وقراءته. ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو."

(كتاب الطلاق، فصل في الطلاق بالكتابة، مطلب في الطلاق بالكتابة، ج: 3، ص: 246، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضاً:

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة)... (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح... (واحدة رجعية وإن نوى خلافها) من البائن أو أكثر خلافا للشافعي (أو لم ينو شيئا)."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج: 3، ص: 256، ط: دار الفكر بيروت)

ہدایہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة، أو ثنتين في الأمة: لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا، ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها."

(كتاب الطلاق، فصل فيما تحل به المطلقة، ج: 2، ص: 132، ط: البشرى)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں