بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میسج اور فون پر کسی کو اپنے نکاح کا وکیل بنانے کاحکم


سوال

  اگر کوئی لڑکی فون پر اور پھر ایس ایم ایس کے ذریعے کسی لڑکے کو اپنے نکاح کا وکیل بنائے ، اور کہے کہ آپ میرا نکاح خود کے ساتھ کرلیں، پھر لڑکا دو عاقل بالغ مسلمان گواہوں  کے سامنے لڑکی کا نام لے کر یہ کہے کہ مجھے فلاں بنت فلاں نے اپنے آپ سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے، میں تم دونوں گواہوں کی موجودگی میں اُس لڑکی کو اپنے نکاح میں قبول کرتا ہوں۔ لڑکالڑکی دونو ں کفو ہیں، اور نکاح کے وقت گواہ کے سامنے لڑکی کا نام اور لڑکی کے باپ دادا کا نام اور لڑکی کے گھر کا پتہ بھی بالکل صحیح اور واضح ذِکر کر دیا گیا تھا، لیکِن دونوں گواہ لڑکے کے دوست تھے، جو لڑکی کو یا لڑکی کے باپ دادا کو نہیں پہچانتے تھے، کیا یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے؟

کیا نکاح کے منعقد ہونے کے لئے گواہ کا لڑکی کو پہچاننا شرط ہے؟

اور کیا دولہا کا خود کے نکاح کا وکالت کرنا درست تھا یہ نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً عاقلہ بالغہ لڑکی نے لڑکے کو اپنے نکاح کا وکیل بنایاکہ" خود کے ساتھ میرا نکاح کرلو"  اور لڑکے نے دوگواہوں کے سامنے لڑکی کانکاح خود سے کرلیا تو مذکورہ نکاح منعقد ہوگیا ہے۔

نکاح کے گواہ اگرچه لڑکی کو پہچانتے نہیں ہیں، ليكن جب نكاح کے وقت لڑکی کے وکیل نے لڑکی ، لڑکی کے والد اور دادا کا نام لے کر نکاح کرلیا تو مذکورہ نکاح درست ہے۔ ایسی صورت میں گواہوں کا لڑکی كو پہچاننا ضروری نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال ينعقد النكاح بالكتاب كما ينعقد بالخطاب. وصورته: أن يكتب إليها يخطبها فإذا بلغها الكتاب أحضرت الشهود وقرأته عليهم وقالت زوجت نفسي منه أو تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني فاشهدوا أني زوجت نفسي منه...هذا أي إذا كان الكتاب بلفظ التزوج، أما إذا كان بلفظ الأمر كقوله زوجي نفسك مني لا يشترط إعلامها الشهود بما في الكتاب؛ لأنها تتولى طرفي العقد بحكم الوكالة."

(كتاب النكاح،ج:3،ص:12،ط:سعيد)

الدرالمختار مع الردالمحتارمیں ہے:

"(ويتولى طرفي النكاح واحد) بإيجاب يقوم مقام القبول في خمس صور كأن كان وليا أو وكيلا من الجانبين أو أصيلا من جانب ووكيلا أو وليا من آخر، أو وليا من جانب وكيلا من آخر كزوجت بنتي من موكلي (ليس) ذلك الواحد (بفضولي) ولو (من جانب)...

قوله ووكيلا أو وليا من آخر) كما لو وكلته امرأة أن يزوجها من نفسه، أو كانت له بنت عم صغيرة لا ولي لها أقرب منه فقال تزوجت موكلتي أو بنت عمي."

(كتاب النكاح،باب الكفاءة،ج:3،ص:98،ط:سعيد)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".

 (کتاب النکاح، فصل ولایة الندب والإستحباب فی النکاح،ج:2، ص:247، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں