1۔میرے شوہر نے چار پانچ سال قبل مجھے میسج کے ذریعہ طلاق دی،میسج کے الفاظ یہ تھے:"میری طرف سے تم آزاد ہو،میں نے تمہیں طلاق دی"مذکورہ جملہ تین مرتبہ تحریر کرکے میسج کیا تھا،میرے تین بچے ہیں،ان بچوں کی وجہ سے میں پچھلے چار پانچ سال سے اسی کے ساتھ رہ رہی ہوں،اس کے بعد ابھی گذشتہ رمضان کی پہلی تاریخ کو شوہر نے صاف الفاظوں میں مجھ سے کہاکہ:میں نے تمہیں طلاق دی،طلاق دی،طلاق دی۔آپ شرعی طور پر میری راہ نمائی فرمائیں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟
2۔میرے تین بچے ہیں،جنہیں کوئی رکھنے کو تیار نہیں ہے،اس لئے کیامیں بغیر حلالہ کے دوبارہ اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟
3۔کیا طلاق کے بعد عدت گزارنا ضروری ہے؟اور عدت کی مدت کتنی ہوتی ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں شوہر نے اگر واقعۃًچار پانچ سال قبل سائلہ کو یہ جملہ :"میری طرف سے تم آزاد ہو،میں نے تمہیں طلاق دی"میسج میں تین مرتبہ تحریرکرکے بھیجاتھاتو اسی وقت سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی تھیں اور نکاح ختم ہو گیاتھا، بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی تھی، اس کے بعد ساتھ رہنا اور رجوع کرنا جائز نہیں تھااور نہ ہی تجدید نکاح کی گنجائش تھی،میاں بیوی کا اتنا عرصہ ایک ساتھ رہنا شرعاً ناجائز ااور حرام تھا،مذکورہ فعل کرکے دونوں میاں بیوی سخت حرام کاری کے مرتکب ہوئے ہیں، لہذا سائلہ اپنے شوہر سے فوراً علیحدگی اختیار کرے،پھر اس کے بعداپنی عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔نیزاتنے عرصےایک ساتھ رہنے پر دونوں میاں بیوی رب کے حضور صدقِ دل سے خوب توبہ واستغفاربھی کریں۔
باقی گذشتہ رمضان کی پہلی تاریخ کو شوہرنے جو مذکورہ جملہ:"میں نے تمہیں طلاق دی،طلاق دی،طلاق دی،"کہا ہے،اس سے سائلہ پر کچھ واقع نہیں ہوئی ہے،کیوں کہ میاں بیوی کا رشتہ پہلےختم ہوچکا تھا۔
2۔واضح رہے کہ اگرشوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اس کے بعد اس کی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے، اب اگر وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور مرد سےدو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لے اور ازدواجی تعلق بھی قائم کرلے، پھر اس کے بعددوسرےشوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اتفاقی طور پر طلاق دے دے تو عدت گزارنے کے بعد وہ عورت پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہےاس سے پہلے نہیں ،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے لیے حلالہ کیے بغیر اپنے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
باقی بچوں سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ بچوں کی پرورش کا حق ماں کو ہوتاہے جب تک طلاق نہ ہوئی ہواور بعد طلاقعلیحدگی کی صورت میں لڑکی کی عمر نو سال اور لڑکے کی عمر سات سال ہونے تک ان کی پرورش کا حق ان کی والدہ کو حاصل ہوتا ہے،اس کے بعد ان کی پرورش کا حق ان کے والد کو ہوتا ہے،لہذا اگرآپ کے بچے مذکورہ عمرکوپہنچ چکے ہیں تو ان کی پرورش وغیرہ ان کے والد کے ذمہ ہے،اور بچے انہیں کی پا س رہیں گے۔
3۔واضح رہے کہعورت کو طلاق ملنے کے بعد عدت گزارنا ضروری ہے، اور عدت کی مدت حیض والی عورت کے لیے تین حیض ہیں، اور اگر عورت طلاق کے وقت حاملہ ہو تو پھر عدت کی مدت وضع حمل ہے، یعنی جب بچہ پیدا ہوجائے تو عدت ختم ہوجائے گی۔اور اگر عورت کو عمر کے کم یا زیادہ ہونے کی وجہ سے حیض نہیں آتا تو اس کی عدت تین ماہ ہوگی ۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن حماد قال: إذا کتب الرجل إلی امرأته -إلی- أمابعد! فأنت طالق فهي طالق، و قال ابن شبرمة: هي طالق."
( کتاب الطلاق، باب في الرجل یکتب طلاق امرأته بیده،ج:9،ص:562، رقم:18304، ط:مؤسسة علوم القرآن)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"(المادة ٦٩) : الكتاب كالخطاب ... و الحاصل: أنّ كلّ كتاب يحرر على الوجه المتعارف من الناس حجة على كاتبه كالنطق باللسان."
( المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،ج:1،ص:69، المادة: 69، ط: دار الجيل)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: كتب الطلاق إلخ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين: مرسومة وغير مرسومة،وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو"
(مطلب في الطلاق بالکتابة، ج:3، ص:246، ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."
(کتاب الطلاق،ج:3،ص:233،ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....(بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية...(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر).....(ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:504-509، ط: سعيد)
وفیہ ایضا:
"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:511، ط: سعید)
تحفة الفقہاء میں ہے:
"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن }."
(كتاب الطلاق، باب العدة،ج:2،ص:245/244،ط:دار الكتب العلمية،بيروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا" .
(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1، ص:349، ط:دار الفکر بیروت)
وفیه أیضا:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."
( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به،ج:1،ص:473، ط: دار الفكر)
وفیہ ایضا:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي۔۔۔۔ وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة وإن علت۔۔۔۔ وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا۔۔۔۔ والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى-: إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح. هكذا في التبيين."
(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر في الحضانة،ج:1،ص:542/541،ط:دارالفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102790
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن