بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں چندہ کرنے کا حکم


سوال

کیا مسجد میں چندہ کرنا درست ہےیانہیں؟  جیسے ختم قرآن کے سلسلہ میں چندہ  کرنا یا مسجد  کی تعمیر کے سلسلہ میں چندہ وغیرہ کرنا۔

جواب

واضح رہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، اس کا احترام ضروری ہے، بلاوجہ اس میں بندوں سےسوال کرنا درست نہیں ہے،ختم قرآن کے سلسلہ میں شیرنی اور حافظ قرآن وغیرہ کے  لیے چندہ کرنا چاہے مسجدہویاغیرمسجدہو بالکل درست نہیں ہے، تا ہم دینی  ضرورت کے لیے مثلاً مسجد یا مدرسہ یا کسی اور دینی مقصد کے لیے اگر چندہ کی ضرورت ہو تو  چند شرائط کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں چندہ کرنا جائز ہے،مطلقاً  حرام نہیں ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔

(2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ۔

(3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے  ۔

(4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔

 شدید ضرورت کے مختلف مواقع پر نبی کریم ﷺ کی طرف سے تعاون کا اعلان اور بعض مواقع پر (جیسے غزوہ تبوک، اور ایک ضرورت مند قبیلے کے وفد کی آمد کے موقع پر) آپ ﷺ کا خود مسجد میں امداد جمع کرنا منقول ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن عبد الرحمن بن خباب قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحث على جيش العسرة فقام عثمان فقال: يا رسول الله علي مائتا بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله ثم حض على الجيش فقام عثمان فقال: علي مائتا بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله ثم حض فقام عثمان فقال: علي ثلاثمائة بعير بأحلاسها وأقتابها في سبيل الله فأنا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عن المنبر وهو يقول: «ما على عثمان ما عمل بعد هذه ما على عثمان ما عمل بعد هذه» . رواه الترمذي."

(مشكاة المصابيح، كتاب المناقب، باب مناقب عثمان، الفصل الثاني، ج:3 ، ص:1713، ط: المكتب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لا يمر بين يدي المصلي ولا يتخطى الرقاب ولا يسأل إلحافا بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:164، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں