بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میرے خدا نے تجھے طلاق دی کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 زید نے اپنی بیوی سے یوں کہا:" میرےخدا نے تجھے طلاق دی۔"تو کیا اس کے اس جملہ سے اس کی بیوی پر  طلاق واقع ہو جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں زید نے اپنی بیوی کو طلاق کے جو الفاظ بولے ہیں کہ " میرے خدا نےتجھے طلاق دی۔"تو اس سے اس کی بیوی پر  ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی،طلاقِ رجعی کے بعد  شوہر کے لیے اپنی بیوی کی عدت اگر حمل نہ ہوتو تین ماہواریاں اور اگر حمل ہو تو بچہ کی ولادت تک رجوع  کرنے کا حق ہوگا، لہذا شوہر نےا گر عدت میں قولاًوفعلاً  رجوع کرلیا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا کہ میں نے رجوع کرلیا ہے  یا ازدواجی تعلقات قائم کرلیے تو اس سے رجوع درست ہوجائے گا  اور میاں بیوی کا نکاح برقرار  رہے گا،اور اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا تو عدت گزرتے ہی نکاح  ٹوٹ جائے گا، بعد ازاں  اگر میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی  گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں، اور دونوں صورتوں میں(عدت میں رجوع کرے یا عدت کے بعد نکاحِ جدید کرے) شوہر نے اگر اس  سے پہلے کوئی اور طلاق نہ دی ہو توشوہر کو مزید دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"ولو قال لامرأته: ‌طلقك ‌الله تطلق، وإن لم ينو لأنه لا يطلقها الله إلا وهي طالق، هكذا ذكر في «فتاوى أبي الليث رحمه الله» . وفي «المنتقى» وفي «العيون» شرط النية، والأول أصح."

(كتاب الطلاق، ‌‌الفصل الرابع: فيما يرجع إلى صريح الطلاق، ج:3، ص:210، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں  ہے:

"رجل قال لامرأته ‌طلقك ‌الله تعالى تطلق وإن لم ينو كذا في الخلاصة. وهو الأصح هكذا في المحيط."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الأول في الطلاق الصريح، ج:3، ص:359، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

" ولو قال: طلقك الله هل يفتقر لنية؟قال الكمال: الحق نعم.

وفي الرد:(قوله قال الكمال الحق نعم) نقله عنه في البحر والنهر، وأقراه عليه بعد حكايتهما الخلاف. ووجهه أنه يحتمل الدعاء فتوقف على النية. وفي التتارخانية عن العتابية: المختار عدم توقفه عليها وبه كان يفتي ظهير الدين. قال المقدسي: ويقع في عصرنا نظير هذا، يطلب الرجل من المرأة فتقول أبرأك الله وكانت حادثة الفتوى وكتبت بصحتها لتعارفهم بذلك. اهـ. قلت: ومثله في فتاوى قارئ الهداية والمنظومة المحبية."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:3، ص:255، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102213

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں