بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا یہ کہنا کہ میرے گھر سے چلی جاو، یا دفع ہوجاو، یا غرق ہوجاو


سوال

ایک مرتبہ میری بیوی کے ساتھ کسی بات پر نااتفاقی پیدا ہوئی ، جس کی وجہ سے کچھ جملے ایسے استعمال ہوئے ہیں کہ "میرے گھر سے چلی جاؤ، یا دفع ہو جاؤ ، یا غرق ہو جاؤ"تو اس سے نکاح میں توکوئی فرق نہیں آئے گا؟اس وقت میں غصے میں تھا،اور میری نیت بھی طلاق ہی کی تھی ،یہ الفاظ میں نے چھ ماہ پہلے کہے تھے۔

برائے کرم مجھے اس کا شرعی حکم بتا دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے چونکہ مذکورہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے تھے، اس لئے سائل کےپہلے جملے"میرے گھر سے چلی جاؤ " کہنے سے ہی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہو کر نکاح ٹوٹ چکا تھا،اس کے بعد کے الفاظ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،اس کے بعد اگر تجدیدِ نکاح کے بغیر ساتھ رہتے رہے تو بغیر تجدید نکاح ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں تھا،  اس پر سچے دل سے توبہ و استغفار  کرنا لازم ہے، البتہ اب  اگر سائل دوبارہ اپنا گھرآباد کرنا چاہتا ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ سائل بیوی کی رضامندی سے   دو گواہوں کی موجودگی میں  نئے مہر اور نئے ایجاب  و قبول  کے ساتھ  تجدیدِ نکاح کرے ،تجدیدِ نکاح کی صورت میں  آئندہ کے لیے سائل کے پاس بقیہ دو طلاق کا حق ہو گا،اور اگر بیوی  اپنے شوہر( یعنی  سائل ) سے علیحدہ ہونے کے وقت سے اپنی عدت( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو تو،اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو دوسری جگہ نکاح بھی کر سکتی ہے، سائل اسے تجدیدِ نکاح پر مجبور نہیں کر سکتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا ۔۔۔۔۔۔ (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له ۔۔۔۔۔  (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط)."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:298، ط:سعيد)

وفيه ايضاّ:

"( الصريح يلحق الصريح و ) يلحق ( البائن ) بشرط العدة ( والبائن يلحق الصريح ) الصريح ما لايحتاج إلى نية بائناً كان الواقع به أو رجعياً ··· فتح ( لا ) يلحق البائن (البائن).

(قوله: لايلحق البائن البائن ) المراد بالبائن الذي لايلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح.  وقيد بقوله: الذي لايلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولاً أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال وحينئذٍ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم: والبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن ...  ومنها ما في الكافي للحاكم الشهيد الذي هو جمع كلام محمد في كتبه ظاهر الرواية حيث قال: وإذا طلقها تطليقةً بائنةً ثم قال لها في عدتها: أنت علي حرام أو خلية أو برية أو بائن أو بتة أو شبه ذلك وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شيء؛ لأنه صادق في قوله: هي علي حرام وهي مني بائن اهـ أي لأنه يمكن جعل الثاني خبراً عن الأول، وظاهر قوله: طلقها تطليقةً بائنةً أن المراد به الصريح البائن بقرينة مقابلته له بألفاظ الكناية، تأمل." 

( كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:307 و 308، ط:سعيد) 

بدائع الصنائع  میں ہے: 

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضاً حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولايجري اللعان بينهما ولايجري التوارث ولايحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100341

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں