بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میری طرف سے تین لفظ ہیں کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

گھر میں افراد زیادہ ہیں اکثر لڑائی ہوتی رہتی ہے، بیوی نے شوہر سے کہا مجھے ''نیا گھر دلا دو یا طلاق دو' '، شوہر نے کہا ''میری طرف سے تین لفظ ہیں''،  کیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق واقع کرنے کے لیےایسے الفاظ کا استعمال ضروری ہے جو صراحۃً  یا کنایۃً طلاق پر دلالت کرتے ہوں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو صرف یہی الفاظ کہے کہ ''میری طرف سے تین لفظ ہیں''،  اور اس کے بعد کچھ نہیں کہا ، تو اس صورت میں  اگر اس جملہ سے بیوی کو تین طلاق دینا مقصود نہیں تھا  تواس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور مذکورہ شخص کا نکاح بدستور برقرار ہے،  تاہم اگر اس سے بیوی کو تین طلاق دینا مقصود تھا تو پھر اس سے تینوں   طلاقیں واقع ہوگئیں ، اور آپ کا نکاح اپنی بیوی سے ختم ہوگیا۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.
وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره."

(کتاب الطلاق،230/3،سعید)

ہندیہ میں ہے:

ولو قالت ‌أنا ‌طالق ‌فقال ‌نعم طلقت ولو قاله في جواب طلقني لا تطلق وإن نوى."

(ج:1، ص:356، ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں