بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میری طرف سے ایک دفعہ نہیں دس دفعہ جواب ہے، میں نے شادی نہیں کرنی


سوال

ایک شخص کا کچھ عرصہ پہلے نکاح ہوا، رخصتی نہیں ہوئی، لیکن گھریلوں حالات کی وجہ سے لڑکے کے باپ نے پیغام دیاہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو بہت سمجھایاہے لیکن میرے بیٹے نے یہ جواب دیاہےکہ میری طرف سے ایک دفعہ نہیں دس دفعہ جواب ہے، میں نے شادی نہیں کرنی، جہاں ان کا رشتہ ہوتاہے کرلیں، اس گفتگو کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔

ایک اور موقع پر ہم کچھ لوگ جمع ہوئے، اس وقت اس لڑکے کے باپ نے کہا: وہ سامنےمیرابیٹا بیٹھاہے اس سے پوچھ لیں، اس نے رشتہ کرنے سے جواب دے دیاہے۔ وہاں ایک عالم موجود تھے، انہوں نے اس لڑکے سے مخاطب ہوکر کہا: کیاآپ نے رشتہ سے جواب دے دیاہے؟ اس نے کہا: ہاں ہاں ، میں نے پہلے سے ہی جواب دیاہے اور آج بھی جواب ہے، اس عالم نے تین بار یہی الفاظ دہرائے اور لڑکے نے ہاں ہاں میں جواب دیا۔

تو اب اس لڑکے کے نکاح کے بارے میں کیا حکم ہے؟

وضاحت: نکاح کے بعد زوجین میں خلوتِ صحیحہ نہیں ہوئی تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا   جملہ : "میری طرف سے ایک دفعہ نہیں دس دفعہ جواب ہے، میں نے شادی نہیں کرنی، جہاں ان کا رشتہ ہوتاہے کرلیں" اور پھر مذکورہ عالم کے اس سوال پر کہ 'کیا آپ نے رشتہ سے جواب دے دیاہے؟ اس کا یہ کہنا کہ ہاں ہاں میں نے پہلے سے ہی جواب دیاہے آج بھی جواب ہے' تو یہ  طلاق کےالفاظ   کنائی  کے اس قبیل میں سے ہے کہ جس سے دلالت حال کی بناءپربلکہ اس جملہ سے رشتہ ختم کرنے کا مفہوم واضح ہونے کی وجہ سے  مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک  طلاق بائنہ  واقع ہو ئی ہے،  نکاح ختم ہوگیاہے، مطلقہ کے  غیر مدخول بہا ہونے کی وجہ سے  اس پر عدت لازم نہیں ، عدت گزارے بغیر کسی بھی دوسری جگہ اس کا نکاح کرنا جائز ہےاور شوہر پر بیوی کا نصف(آدھا) حق مہر لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"اذهبي وتزوجي تقع واحدة بلا نية.

وفي الرد: (قوله: تقع واحدة بلا نية) لأن تزوجي قرينة، فإن نوى الثلاث فثلاث بزازية، ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال: اذهبي فتزوجي وقال: لم أنو الطلاق لايقع شيء؛ لأن معناه إن أمكنك اهـ إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا بحر، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثا فالأوجه ما في شرح الجامع، ولا فرق بين الواو والفاء، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لايقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث."

(رد المحتار، كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج: 3، ص: 314، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وبابتغي الأزواج تقع واحدة بائنة إن نواها أو اثنتين وثلاث إن نواها هكذا في شرح الوقاية."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج: 1، ص: 375، ط: رشيدية )

فتاوی شامی میں ہے:

"(ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

وفي الرد: قيد به لأنه لا يقع ديانة بدون النية، ولو وجدت دلالة الحال فوقوعه بواحد من النية أو دلالة الحال إنما هو في القضاء فقط كما هو صريح البحر وغيره. (قوله أو دلالة الحال) المراد بها الحالة الظاهرة المفيدة لمقصوده... ومقتضى إطلاقه هنا كالكنز أن الكنايات كلها يقع بها الطلاق بدلالة الحال."

(ر‌‌د المحتار، كتاب الطلاق، ‌‌باب الكنايات، ج: 3، ص: 297،296، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) يلحق البائن (البائن).

وفي الرد: (قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال، وحينئذ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم فالبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن."

(ر‌‌د المحتار، كتاب الطلاق، ‌‌باب الكنايات، ج: 3، ص: 308، ط: سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"میری طرف سے اجازت ہے آپ اپنی لڑکی کی شادی کہیں کردینا" خط کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتاہے کہ شوہر کی نیت طلاق کی تھی اس لیے طلاق بائن واقع ہوگئی۔

(کتاب الطلاق، باب الطلاق بألفاظ الکنایۃ، ج: 12، ص: 535، ط: جامعہ فاروقیہ)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"میری طرف سے جواب ہے" اس سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگئی۔ کیوں کہ فقط لفظ جواب ہی طلاق سے کنایہ ہےاور کنایہ میں اگرچہ نیت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب قرینہ اور دلالت ارادہ طلاق موجود ہے تو قضائی طلاق کا حکم کردیاجائےگا۔

(کتاب الطلاق، باب چہارم کنایات، ج: 9، ص: 273، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں