بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو میری طرف سے تین شرط پر فارغ ہے کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ "تو میری طرف سے تین شرط پر فارغ ہے"، تو کیا ایسی صورت میں ایک طلاق ہوگی یا تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی؟

جواب

واضح رہے کہ  "فارغ" کا لفظ طلاق کے لیے بطورِ کنایہ استعمال ہوتا ہے، لہذا کوئی شخص غصہ کی حالت میں یا رضامندی کی حالت میں طلاق کی نیت سے یہ الفاظ بولے تو طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے،اور اگر "فارغ" کا لفظ اداکرتے وقت طلاق کی نیت نہیں تھی،لیکن طلاق کا مذاکرہ چل رہا تھا یا طلاق کامطالبہ تھا تو بلانیت  بھی شرعاً طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے، مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی کو جو الفاظ بولے ہیں کہ "تو میری طرف سے تین شرط پر فارغ ہے"،خواہ غصے کی حالت میں بولے ہوں یا رضامندی کی حالت میں  بولےہوں، اگریہ  بولتے وقت شوہر کی طلاق کی نیت تھی،یا طلاق کا مذاکرہ چل رہا تھا،یا پھر بیوی یا کسی اور  نے طلاق کا مطالبہ کیا ہو اور اس کے جواب میں یہ سائل نے اپنی بیوی کو مذکورہ الفاظ بولے تواس صورت میں سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،اور میاں بیوی کا نکاح ختم ہوچکااور بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ شوہر(سائل) پر حرام ہوچکی ہے،اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا،مطلقہ اپنی عدت( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل ہونےکی صورت میں وضع حمل تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

اور اگرمذکورہ بالا الفاظ بیوی کو بولتے وقت شوہر نے طلاق کی نیت  نہیں کی تھی، خواہ غصے کی حالت میں ہو یا نہ ہو،اور مطالبہ پر اس پر قسم بھی اٹھالے،اسی طرح نہ ہی طلاق کا مذاکرہ یا مطالبہ تھا،تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"(قال) ولو قال أنت مني بائن أو بتة ‌أو ‌خلية أو برية فإن لم ينو الطلاق لا يقع الطلاق لأنه تكلم بكلام محتمل."

(كتاب الطلاق، باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق، ج:6، ص:72، ط:دارالمعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الخامس في الكنايات) لا يقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال كذا في الجوهرة النيرة. ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام ."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، ج:1، ص:374،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌باب الكنايات (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب.

وفي الرد: (قوله خلية) بفتح الخاء المعجمة فعيلة بمعنى فاعلة: أي خالية إما عن النكاح أو عن الخير ح: أي فهو عن الأول جواب، وعلى الثاني سب وشتم، ومثله ما يأتي."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:298، ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية وقد نظمت ذلك بقولي:

نحو اخرجي قومي اذهبي ردا يصح … خلية برية سبا صلح

واستبرئي اعتدي جوابا قد حتم … فالأول القصد له دوما لزم

والثاني في الغضب والرضا انضبط … لا الذكر والثالث في الرضا فقط."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ج:3، ص:301،ط:سعيد)

فتح القدیر میں ہے:

"الكنايات ‌إذا ‌نوى بها الطلاق كانت واحدة بائنة، وإن نوى ثلاثا كانت ثلاثا."

(کتاب الطلاق،ج:4، ص:63، ط: دارالفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - ﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَه﴾ ،وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

( کتاب الطلاق،فصل فی حكم الطلاق البائن،ج:3، ص:187، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"اپنی بیوی سے کہا: "یہ عورت مجھ پر تین شرط طلاق ایک دفعہ ہے" تو کیا حکم ہے ؟
"سو ال: ایک شخص نے غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو یہ کہا کہ یہ عورت مجھ پر تین شرط طلاق ایک دفعہ ہے ، اس طور پر کہہ دیا اور عدت کے اندر زبانی رجعت بھی کر لی ، آیا بغیر نکاح و حلالہ کے یہ عورت اس پر جائز ہوسکتی ہے یا نہیں؟
الجواب: اس صورت میں اس کی زوجہ پر تین طلاق واقع ہوگئی، اور وہ عورت مطلقہ ثلاثہ ہو کر مغلظہ بائنہ ہوگئی، بدون حلالہ کے اس سے شوہر اول دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا اور ر جعت صحیح نہیں ہوئی ، کیوں کہ ایک دفعہ تین طلاق دینے سے بھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہے۔  "قال فی الدر المختار:  والبدعی ثلاث متفرقة ۔ قال فی الشامی:  وکذا بکلمة واحدۃ بالاولی الخ، وذھب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدھم من ائمة المسلمین إلیٰ أنه یقع ثلث الخ ."

(کتاب الطلاق،تین طلاق اور ان سے متعلق احکام و مسائل، ج:9، ص:296، ط:مکتبہ دارالعلوم دیوبند)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408101791

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں