بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میری باتیں قرآن ہیں اس کو قرآن کی طرح سمجھو اور عمل کرو اور میں کبھی بھی نازل ہو سکتا ہوں اور تم لوگ مرو گے نہیں کیونکہ جب حضرت عزرا ئیل آئیں گے تو وہ بھی مجھ سے اجازت لیں گے الفاظ کہنے کا حکم


سوال

 ایک شخص اپنے ماتحتوں کے ساتھ میٹنگ کرتے ہوئے باتوں باتوں میں کہتا ہے۔کہ " میری  باتیں قرآن ہیں اس کو قرآن کی طرح سمجھو اور عمل کرو ۔" میں کبھی بھی نازل ہو سکتا ہوں اور تم لوگ مرو گے نہیں کیونکہ جب حضرت عزرا ئیل آئیں گے تو وہ بھی مجھ سے اجازت لیں گے" کیا یہ کلمات کہنا جائز ہے؟ یا کفریہ ہے۔ اور اگر صحیح نہیں تو مخاطبین کو کیا کرنا چاہیے؟کیونکہ یہ کلمات کہنے والا کسی کی نہیں سنتا اگر کہو تو آگے سے کہتا ہے یہ بابا آدم کے زمانے کے مولویوں کی باتیں مت کرو۔ تو  ان کے سامنے خاموش رہنے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ وہ کسی کی سنتا نہیں ہے۔ اور اگر زیادہ کچھ کہو تو  وہ اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے بغض اور عناد میں  آجاتا ہے اور کام سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور جب سب کی تنخواہیں بڑھائی جائیں  تو اس کی ضد کی وجہ سے نہیں بڑھائی جاتیں۔ تو کیا مخاطب دل میں برا سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کر سکتا ہے ؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کے الفاظ کا حکم مندرجہ ذیل ہے:

۱)   " میری  باتیں قرآن ہیں اس کو قرآن کی طرح سمجھو اور عمل کرو ":یہ کفریہ الفاظ ہیں کیونکہ اس کے ضمن میں نبوت اور وحی کا دعوی کر رہا  ہے لہذا  اس پر لازم ہے کہ وہ توبہ کرے  اور اپنے عقائد کو درست کرے اورایمان کی تجدید کرےا ور اگر شادی شدہ ہے تو نکاح کی بھی تجدید کرے ۔ 

۲) "کبھی بھی نازل ہو سکتا ہوں" : ان الفاظ سے کفر لازم تو نہیں آئے گالیکن یہ سراسر گمراہی ہے ، اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے خلاف ہے۔

۳) "اور تم لوگ مرو گے نہیں کیونکہ جب حضرت عزرا ئیل آئیں گے تو وہ بھی مجھ سے اجازت لیں گے": یہ بھی کفریہ الفاظ ہیں کیونکہ عزرائیل اللہ سے اجازت لے کر آتا ہے کسی بندہ سے اجازت لینے کا پابند نہیں ہے گویا کہ ان الفاظ میں ایک قسم کے خدائی گا دعوی ہے۔

 مذکورہ ادارہ کے ملازمین کو چاہیے کہ  جب مذکورہ شخص اس قسم کی بات کرے تو اس کی باتوں کو نہ سنیں اوراس شخص کے بارے میں افسران بالا سے مل کر  اس کے خلاف کاروائی کی کوشش کریں، اور اس کو سمجھانے کی کوشش کریں  اور اس بات سے نہ ڈریں  کہ نوکری سے نکالا جائے گا یا تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی اور اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو ثبوت اکٹھا کر نے کے بعد عدالت سے رجوع کریں۔

البحر الرائق میں ہے:

"ويكفر بقوله للقبيح إنه حسن وبقوله لغيره رؤيتي إياك كرؤية ملك الموت عند البعض خلافا للأكثر وقيل به إن قاله لعداوته لا لكراهة الموت وبقوله لا أسمع شهادة فلان وإن كان جبريل أو ميكائيل - عليهما السلام - وبعيبه ملكا من الملائكة أو الاستخفاف به لا بقوله أنا أظن أن ملك الموت توفي ولا يقبض روحي مجازا عن طول عمره إلا أن يعني به العجز عن توفيه."

(کتاب السیر باب احکام المرتدین ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۳۱،دار الکتاب الاسلامی)

الإعلام بقواطع الإسلام میں ہے:

"وأن من ادعى أن النبوة مكتسبة أنه يبلغ بصفاء القلب إلى مرتبتها، أو ادعى أنه يوحى إليه وإن لم يدَّعِ النبوة، أو ادعى أنه يدخل الجنة ويأكل من ثمارها ويعانق الحور فهو كافر بالإجماع قطعاً."

(ص نمبر ۱۶۴،دار التقوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100573

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں