بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میری طرف سے آزاد ، فارغ ، وغیرہ الفاط سے طلاق دینا


سوال

میں اپنی بیگم سے میسج پر بات کر رہا تھا، میں ساری بات تفصیل سے لکھ رہا ہوں آپ کو ،  کچھ دنوں سے بیوی سے لڑائی چل رہی تھی کسی بات پہ،  میں اُسے سمجھا رہا تھا،  جس کام سے منع کریں نہ کیا کرو اور میں اس کی باتوں سے شدید غصے میں آ گیا، مجھے کچھ سمجھ نہیں تھی میں کیا بول رہا ہوں:

بیگم: جب سے آپ نے منع کیا ہے میں آپ کی بات مان گئی ہوں، یار میں اتنی گناہ گار رہ گئی ہوں، دل نہیں مان رہا تو چھوڑ دو۔ مجھ سے یہ روز روز باتیں نہیں سنی جاتیں، حد ہوتی ہے حد۔

میں : میں نے سوالیہ پوچھا: تم چاہتی ہو میں چھوڑ دوں؟

بیگم:  جیسے آپ کی مرضی ہے، میں روز روز تسلیاں دے دے کے تھک چکی ہیں،  روز موبائل سے کبھی کچھ سنڈ کرو کبھی کچھ۔

 میں: میں نے کہا: چلو ایسا کر لیتے ہیں۔

بیگم: کیا؟

میں: ’’یار میں اتنی گناہ گار رہ گئی ہوں دل نہیں مان رہا تو چھوڑ دو ‘‘ یہ.

بیگم: آہو!  یہ ہی بولا ہے، روز کی بات کرنی نہیں چھوڑنی تو جو دل کرتا ہے ویسے کر لو،  میں کیا کر سکتی ہوں؟  روز روز کا ڈراما بنایا ہے، ایک ہی بات روز۔ پریشان کر گیا وہ مجھے نہ گل نہ بات۔

میں: صحیح ہے۔

بیگم : جی۔

میں: جاؤ خوش رہو۔

بیگم:  آپ بھی۔  آپ کا دل نہیں ٹھیک رہنے کو مجھے نظر آ رہا ہے روز کی نئی بات?

میں: میں نے تو آج بھی سمجھایا ہی ہے۔

بیگم: روز روز نہیں کہتے، اگلے کو ایک دو بار ہی سمجھاتے ہیں۔

میں: اگلا تیز  ہی بڑا ہے کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

بیگم: کیا مطلب۔

میں: مطلب یہ کہہ بہت بار بولا ہے ٹھیک رہو سب کے ساتھ۔

بیگم: ٹھیک ہے۔سو جاؤ دل صاف ہو گیا تو بات کر لینا، روز کا پریشان کیا ہوا ہے۔

میں: ٹھیک ہے،  نہیں پریشان کرتا، جاؤ آزاد ہو میری طرف سے۔

بیگم: میں نے کہا ہے، جانا ہے بس بھی کرو فضول باتیں روز کی، میں سونے لگی ہوں۔

دوسرے دن کی بات

بیگم:  السلام و علیکم کیا کر رہے ہو؟

میں: کچھ نہیں۔

بیگم: اور سناؤ ناشتہ کر لیا؟  کہاں گئے ہو مصروفِ ہو؟

میں:  سو گیا تھا، طبیعت ٹھیک نہیں۔

بیگم:  اوکے۔

میں: کال کرو۔

بیگم:  موبائل اندر پڑا تھا، بولو۔

میں: کیا بولوں؟

بیگم:  جو بھی۔

میں: نمبر کیوں بند تھا؟

بیگم: اندر پڑا ہوا تھا پتا نہیں۔

میں: اندر تو ٹھیک ہے،  لیکن کال کیوں نہیں جا رہی تھی؟  پھر کہتی ہو شک کرتا ہے۔

بیگم: آپ کال کر کے چیک کر لو۔

میں:  ابھی تو چلی گئی ہے، جب فون بند کرتا ہوں پھر کروں تو نہیں جاتی۔

بیگم : مجھے تو نہیں پتا، آن ہی ہے، کچھ بھی نہیں اس کو۔

میں: پھر کیا تھا، اس کو کیوں نہیں بیل جاتی، آن ہو تو بیل جانی چاہیے۔

بیگم: آن ہی رہتا ہے۔

میں:  تمہارے پاس سم کتنی ہیں؟  مجھے تو لگتا ہے 2 ہیں، تب ہی سروس چلی جاتی ہے۔

بیگم:  ہے کیا آپ کو ہو میرے شوہر ہی۔

میں: اب نہیں رہا۔

بیگم : ٹھیک ہے جیسے دل ہے آپ کا۔

میں : جی میری طرف سے فارغ ہو تم،  ابھی بائے جو مرضی ہے کیا کرو، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بائے۔

بیگم: میں نے کب کہا ہے جو مرضی ہے کروں گی۔

میں: تم چاہتی کیا ہو؟

بیگم: کیا کروں میں؟

میں: ہزار بار سمجھایا ہے اپنی عادتیں ٹھیک کر لو مجھے نہیں پسند یہ سب کچھ۔

بیگم: ہے کیا آپ کو، مجھے بتاؤ کیسے ٹھیک ہونا ہے؟

میں: ٹھیک ہو جاؤ،  مذاق مذاق میں اپنا گھر برباد کر بیٹھو گی۔

بیگم: اب میں نے کیا کیا ہے؟

میں: کیوں نمبر آف کر دیتی ہو، خود ایک نیا ایشو بنا کے سامنے رکھ دیتی ہو؟

بیگم: اب کیا کروں بولو جو کہو گے کروں جی۔

میں: ٹھیک رہا کرو میرے ساتھ۔

بیگم: ٹھیک ہے آج کے بعد کوئی لڑائی نہیں کرے گا، میری پہلے بھی کوئی لڑائی نہیں تھی آپ سوچ سمجھ کر بولا کرو۔

میں: میں تمہارا ہسبنڈ ہوں۔

بیگم:  پتا ہے۔

میں: پھر یاد رکھا کرو غصے میں بھی بولوں تو تمیز سے جواب دیا کرو۔

بیگم : اچھا اور کچھ ۔

اس کے بعد راضی ہو گئے۔

جواب

 اس پوری گفتگو  میں آپ نے تین مرتبہ طلاق کے ہم معنی  الفاظ بولے ہیں۔

پہلی بار ’’آزاد ہو میری طرف سے‘‘ 

دوسری بار جب بیوی نے کہا کہ تم شوہر  ہو میرے،  جواب میں کہا کہ ’’اب نہیں رہا‘‘

تیسری بار ’’میری طرف سے فارغ ہو ‘‘۔

آزاد کا لفظ بولنے سے ایک صریح بائن  طلاق واقع ہوگئی،  اس کے بعد کے " تیرا شوہر نہیں رہا" اور " میری طرف سے فارغ ہو " کے الفاظ  طلاق کے لیے کنایہ ہیں نیت کے ساتھ ان الفاظ  سے طلاق واقع  ہوجاتی ہے، مگر چوں کہ آپ نے  بیوی کو پہلے  صریح بائن، طلاق بائن دے دی ہے اس لیے ان سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

لہذا اب آپ کی بیوی کو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے نکاح ٹوٹ چکا ہے ، رجوع کا اختیار نہیں، البتہ رضامندی کے ساتھ  نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ نکاح کرنے کی صورت میں آئندہ دو  طلاق کا اختیار ہوگا۔

البحرالرائق میں ہے:

"قوله: وتطلق بلست لي بامرأة أولست لك بزوج إن نوی طلاقًا یعني وکان النکاح ظاهرًا، وهذاعند أبي حنیفة؛ لأنها تصلح لإنشاء الطلاق کماتصلح لإنکاره فیتعین الأول بالنیة، وقالا: لاتطلق وإن نوی لکذبه … وقدمنا أن الصالح للجواب فقط ثلاثة ألفاظ، لیس هذا منها، فلذا شرط النیة للإشارة إلی أن دلالة الحال هنا لاتکفي، وأشار بقوله: "تطلق" إلی أن الواقع بهذه الکنایة رجعي". (البحر الرائق، کتاب الطلاق، باب الکنایات في الطلاق، ۳/۳۰۵-۳۰۶)

في البدائع الصنائع:

"ولوقال لامرأته: لست لي بامرأة، ولوقال لها ما أنا بزوجك أوسئل فقیل له: هل لك امرأة؟ فقال: لا، فإن قال: أردت الکذب، یصدق في الرضا والغضب جمیعًا ولایقع الطلاق، وإن قال: نویت الطلاق یقع الطلاق علی قول أبي حنیفة، وقال أبو یوسف ومحمد: لایقع الطلاق وإن نوی". (بدائع الصنائع، کتاب الطلاق، فصل في طلاق الکنایة، ۳/۱۷۱)

في الشامیة:

"مَطْلَبٌ الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الصَّرِيحَ وَالْبَائِنَ

(قَوْلُهُ: الصَّرِيحُ يَلْحَقُ الصَّرِيحَ) كَمَا لَوْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ طَالِقٌ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ، أَوْ طَلَّقَهَا عَلَى مَالِ وَقَعَ الثَّانِي، بَحْرٌ، فَلَا فَرْقَ فِي الصَّرِيحِ الثَّانِي بَيْنَ كَوْنِ الْوَاقِعِ بِهِ رَجْعِيًّا أَوْ بَائِنًا (قَوْلُهُ: وَيَلْحَقُ الْبَائِنَ) كَمَا لَوْ قَالَ لَهَا: أَنْتِ بَائِنٌ، أَوْ خَلَعَهَا عَلَى مَال، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ أَوْ هَذِهِ طَالِقٌ، بَحْرٌ عَنْ الْبَزَّازِيَّةِ، ثُمَّ قَالَ: وَإِذَا لَحِقَ الصَّرِيحُ الْبَائِنَ كَانَ بَائِنًا؛ لِأَنَّ الْبَيْنُونَةَ السَّابِقَةَ عَلَيْهِ تَمْنَعُ الرَّجْعَةَ، كَمَا فِي الْخُلَاصَةِ. وَقَالَ أَيْضًا: قَيَّدْنَا الصَّرِيحَ اللَّاحِقَ لِلْبَائِنِ بِكَوْنِهِ خَاطَبَهَا بِهِ وَأَشَارَ إلَيْهَا لِلِاحْتِرَازِ عَمَّا إذَا قَالَ: كُلُّ امْرَأَةٍ لَهُ طَالِقٌ، فَإِنَّهُ لَايَقَعُ عَلَى الْمُخْتَلِعَةِ إلَخْ وَسَيَذْكُرُهُ الشَّارِحُ فِي قَوْلِهِ: وَيُسْتَثْنَى مَا فِي الْبَزَّازِيَّةِ إلَخْ وَيَأْتِي الْكَلَامُ فِيهِ (قَوْلُهُ: بِشَرْطِ الْعِدَّةِ) هَذَا الشَّرْطُ لَا بُدَّ مِنْهُ فِي جَمِيعِ صُوَرِ اللِّحَاقِ، فَالْأَوْلَى تَأْخِيرُهُ عَنْهَا. اهـ". [الرد مع الدر : ٣/ ٣٠٦] فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144109200111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں