بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث سے دستبرداری کا حکم


سوال

عرض هے کہ میں ایک بیوہ عورت ہوں ،میرا شوہر ایک عاجز مزاج انسان تھے ،مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سےمیں نے اپنے زیورات بیچ کردوائی کا کام شروع کیا اورگھرکی تعمیرکی، جس کامیرے شوہر نے مجھے مالک بنا دیا تھا، یعنی اپنی زندگی میں مجھے بخش دیا تھا۔اس بات سے گھر کے افراد آگاہ اور باخبرتھے، میرے شوہر نے بیٹوں کی شادی سے خود کو اس طرح سے بری کردیا تھاکہ اپنے تینوں بیٹوں میں سےایک بیٹے کی شادی کے لیےکچھ  زمین بیچ کرشادی کروائی تھی اور باقی دو(2)بیٹوں کو اپنی زندگی ہی میں زمین کے الگ الگ ٹکڑےدے دیے تھے کہ اپنی شادی کی خود فکر کریں اور بوقتِ ضرورت اس زمین کو کام میں لائیں، یعنی یہ حصے میں نے آپ دونوں کو دے دیے ہیں اور میں آپ کی شادیوں کے خرچ کی طاقت نہیں رکھتا، مذکورہ حصوں کے علاوہ شوہر کی کھیتوں میں زرعی زمین بھی ہے، جو انہوں نے کسی کے حوالے نہیں کی تھی، شوہر نے وفات پائی ،شوہر کی والدہ یعنی میری ساس کے سامنے ہم نے ذکر کیا کہ آپ کا بھی زرعی زمین میں حصہ ہے تو اس نے کہا کہ میں نے بخش دیاہے، میں نہیں مانگتی۔ لہذا پھر اس نے وفات تک اس حصے کا مطالبہ نہیں کیا ،کیوں کہ بخشاتھااور ہم بھی مطمئن ہوگئے تھے،  اس لیے  اس کے لیے حصہ کی تقسیم کرکے حوالے نہیں کیا،وقت گزرا ،وہ وفات پاگئی، اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے یعنی میرے شوہر کے بھائی مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ ہماری والدہ مرحومہ کو اس کے بیٹے مرحوم سے جو حصہ ملنا تھا وہ اسے دیا جائے،تاکہ ہمارے درمیان تقسیم ہو،وہ شریعت کے مطابق حل چاہتے ہیں، حالاں كه همیں پورا وثوق ہے کہ میرے شوہر کی وفات کے بعد جتنا عرصہ میری ساس یعنی ان بھائیوں کی ماں زندہ رہی اگر یہ لوگ اس کی زندگی میں مطالبہ کرتے تو والدہ ان کو کہہ دیتی کہ وہ تو میں نے بخش دیاہے، لیکن اب جب والدہ فوت ہوگئی تو ہمارے پاس باہر سے کوئی گواہ بھی نہیں، صرف گھر کے افراد کو علم ہے اور میرے شوہر کے بھائی شریعت کے مطابق مرحومہ والدہ کی جانب سے اس کے مرحوم بیٹے کا حصہ مانگتے ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ میراث اور ترکہ میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے  کے بعد اپنا حصہ کسی  کو دینا چاہےتو یہ شرعاً جائز اور  معتبر ہے، اسی طرح کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو)  صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، اسے اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں  جب  سائلہ کی ساس  نے میراث تقسیم ہونے سے پہلے  اپنا حصہ بخش دیا کہ میں نہیں مانگتی ،اس سے شرعاً اس کا حصہ ختم نہیں ہوا ،اب چوں کہ ان کا انتقال ہوچکا ہے تو مرحومہ کے بیٹوں کا  اپنی والدہ کے حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے جو ان کے  شرعی ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

" تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار" میں ہے:

" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط."

(کتاب الدعوی ،باب التحالف،ج:۸،ص:۱۱۶،دارالفکر)

وفيه أيضاّ:

"وفيها: ولو قال ‌تركت ‌حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الإرث جبري لا يصح تركه اهـ".

(کتاب الدعوی،باب دعوی النسب،ج:۸،ص:۲۰۸،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں