بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث پر قبضے کا حکم


سوال

میرے بھائی نے والد مرحوم  کی تمام تر جائیداد یعنی زمین ، مال مویشی ، گھر  اور  زیور وغیرہ پر قبضہ کر لیا ہے ،اوربقیہ  چھوٹے  بھائیوں اور بہنوں کو کوئی حصہ نہیں دے رہا ۔بلکہ اس نے  کہا ہے کہ چوں  کہ تم سب نے تعلیم حاصل کی ہے اور باپ کی جگہ پر نوکر ( والد اسکول میں ماسٹر تھے ) لگے ہو ،بس یہی تمہارا حصّہ ہے ۔ مزید 2 پھوپھیاں ہیں جنہوں نے والد کی حیات میں اپنا حصہ الگ کر لیا ، اب وہ دونوں بیوہ اوربے اولاد ہیں ، تو کیا چھوٹا بھائی اِن سے حصہ لے گا ؟ بڑے بھائی نے تو سب کچھ دینے  سے  صاف انکار کردیا ہے ۔

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  سائل اپنے والد کی میراث میں  اپنے شرعی حصے کے بقدر حقدار ہے، والد کی جگہ ملازمت کرنے کے سبب وہ اپنے میراث کے شرعی حصے سے محروم نہیں ہوگا،لہذا اگر بڑا بھائی سائل کو اور  والد مرحوم کے دیگر شرعی ورثاء کو ان کا شرعی حق نہیں دے گا، تو گناہ گار ہوگا  اور  قیامت کے دن سخت  پکڑ ہوگی،نیز دنيا ميں نہيں ديا تو آخرت ميں دينا ہوگا اور آخرت ميں دينا بہت مشكل ہے،رسول الله صلی الله عليہ وسلم نے كسی كی ميراث  سے محروم كرنے  والے كے ليےسخت ترين عذاب اور وعيد بيان فرمائی ہے۔ 

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جوشخص اپنے وارث کے حصے کو ختم کردے(تو) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا حصہ جنت سے ختم کردے گا"۔

2۔سائل کی پھوپیاں  جب تک زندہ ہے ، تب تک سائل کی پھوپھیوں کی جائیداد  میں سائل کا یا  کسی اور کا کسی قسم کا حق نہیں ہے۔

حدیث میں ہے:

"من قطع میراث وارثه قطع اللہ میراثه من الجنة یوم القیامة."

(مشکاة،کتاب البیوع،باب الوصایا ،فصل اول 266 ط:دار الفکر بیروت)

تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے:

"(ولا يحرم ستة) من الورثة (بحال) البتة (الأب و الأم و الإبن و البنت) أي الأبوان والولدان (والزوجان)."

(كتاب الفرائض،فصل في العصبات،779/6،ط:سعيد)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"(وللإرث شروط ثلاثة) :

أولها: تحقق موت المورث أو إلحاقه بالموتى حكما كما في المفقود إذا حكم القاضي بموته أو تقديرا كما في الجنين الذي انفصل بجناية على أمه توجب غرة.

ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث، أو إلحاقه بالأحياء تقديرا، كحمل انفصل حيا حياة مستقرة لوقت يظهر منه وجوده عند الموت ولو نطفة على تفصيل سيأتي في ميراث الحمل.

ثالثها: العلم بالجهة المقتضية للإرث من زوجية أو قرابة أو ولاء، وتعين جهة القرابة من بنوة أو أبوة أو أمومة أو أخوة أو عمومة، والعلم بالدرجة التي اجتمع الميت والوارث فيها"

(إرث،شروط الميراث،22/3، ط:دار السلاسل - كويت)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144410101474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں