بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں بھانجے کے حق دار ہونے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں:

1: ایک صاحب کا انتقال ہوا، ان کی اٹھائیس (28) لاکھ کی جائیداد ہے، میت کا بھانجا ہے وہ بھی اس میں میراث کا دعوی کرتا ہے جبکہ جائیداد سرکاری کاغذات میں میت کے نام پر ہیں اور جائیداد گھر وغیرہ کے تمام بلز میت کے نام پر آتے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ بھانجے کا میراث کا دعوی کرنا درست ہے؟

2: میت کی جائیداد، گھر وغیرہ کی کل مالیت اٹھائیس لاکھ ہے، میت کے ورثہ درج ذیل ہیں:

بیوہ (زوجہ)، تین بیٹے، اور پانچ بیٹیاں ہیں، شرعی حکم کے اعتبار سے یہ مال مذکورہ ورثاء میں کیسے تقسیم ہوگا؟

جواب

1: از رُوئے شرع ذوی الفروض (وہ لوگ جن کے حصے قرآن کریم میں متعیّن ہے) اور عصبات کی موجودگی میں میت کے بھانجے میراث سے محروم ہوتے ہیں، لہذا میّت کا بھانجا اگر کسی اور وجہ سے مثلاً قرض وغیرہ کی وجہ سے حقدار نہیں ہے تو میّت کے بچوں کی موجودگی میں میت کا بھانجا محروم ہے۔

2:  مرحوم  کی جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہوگا  کہ مرحوم کی جائیداد سے حقوقِ متقدمہ  ( یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اور مرحوم کے ذمہ واجب الادا  قرض اور جائز وصیت کے   مابقیہ ترکے کے ایک تہائی سے نفاذ کے بعد)  کل جائیدادِ منقولہ وغیرمنقولہ کو اٹھاسی (88) حصوں میں تقسیم کرکےگیارہ (11) حصّے مرحوم کی بیوہ کو، اور  چودہ/ چودہ (14/14) مرحوم کے ہر بیٹے کو، اور سات/سات (7/7) حصّے مرحوم کی ہربیٹی  کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت۔۔۔88/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
1114141477777

یعنی  اٹھائیس لاکھ (2800000) روپے میں سے 350000روپے مرحوم کی بیوہ کو، اور445,454 روپے ہر بیٹے کو، اور 222,727روپے ہر بیٹی کو ملیں گے۔

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"توريث ذوي الأرحام (هو كل قريب ليس بذي سهم ولا عصبة) فهو قسم ثالث حينئذ (ولا يرث مع ذي سهم ولا عصبة سوى الزوجين) لعدم الرد عليهما (فيأخذ المنفرد جميع المال) بالقرابة.

(قوله: هو كل قريب إلخ) أي اصطلاحا أما لغة فهو بمعنى ذي القرابة مطلقا سيد: أي سواء كان ذا سهم أو عصبة أو غيرهما أو سواء انتمى إليه الميت، أو انتمى إلى الميت أو إلى أصوله.

(قوله: فيأخذ المنفرد) أي الواحد منهم من أي صنف كان جميع المال أي أو ما بقي بعد فرض أحد الزوجين".

(کتاب الفرائض، باب توريث ذوي الأرحام، ج:6، ص:791، ط:ایج ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں