بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم کا طریقہ بطریقِ مناسخہ (5 بطن)


سوال

میرے والد صاحب کی ایک دکان ہے، والد صاحب کا انتقال 1990 میں ہو گیا تھا ،میرے والد صاحب کے پانچ بیٹے دو بیٹیاں اور ایک بیوی تھی، میرے والد صاحب کے والدین  ان کی زندگی میں انتقال کر گئے تھے، والد کی زندگی میں دو بڑے بیٹوں کا  بھی انتقال ہو گیا تھا، جو غیر شادی شدہ تھے ،پھر والد کے انتقال کے بعد میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوا، ان سے ان کےچار بیٹیاں اور ایک بیٹااور  بیوہ  ہے، پھر بڑی بہن کا انتقال ہو ا،بہن کے انتقال سے دو دن پہلے بہنوئی کا انتقال ہو گیا تھا، ان سے چار بیٹے ایک بیٹی ہے، پھر میرے چھوٹے بھائی کا انتقال ہو ا، جن  کی  صرف بیوہ ہے، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، پھر میری والدہ کا انتقال ہو ا،اب  والد کی اولاد میں  ایک بیٹا اور ایک بیٹی  حیات ہے، اور دونوں شادی شدہ ہیں ۔

مجھے کچھ چیزیں معلوم کرنی ہیں کہ بڑی بہن کا جب انتقال ہوا  ،اس وقت والدہ زندہ تھیں،تو کیا  وہ والد کی جائیداد میں حصہ دار ہیں ؟

والد کے انتقال کے بعد ان کی  دکان کی دیکھ بھال، بجلی کا بل وغیرہ سب خیال میں نے رکھا ہے ،میرے علاوہ اگر کوئی اس میں حصے دار ہے تو کتنا ہے؟ کس حساب سے ہے ؟مہربانی فرما کے شرعی لحاظ سے میری راہ نمائی فرمائیے۔

میرے والد صاحب نے وصیت کی تھی کہ میری جائیداد میں بڑی بیٹی کا کوئی حصہ نہیں ہے، کیوں کہ میں نے ان کو اپنی زندگی میں زمین دے دی تھی، یہ ان کی وصیت تھی ،تو کیا اب  مجھے اپنی بڑی بہن کو کچھ نہیں دینا؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت کا قانون وراثت یہ ہے کہ مورث کے انتقال کے وقت اس کے جو جو ورثاء زندہ تھے،وہ سب اس کی وراثت کے حقدار ہوتے ہیں ،چاہے تقسیم وراثت سے پہلے کسی وارث کا انتقال ہوجائے ،تب بھی وہ وارث وراثت کا حقدار ہوتا ہے،اور اس کے اس حصہ کو اس مرحوم وارث کے ورثاء میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔

1-لہذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ والد کے انتقال کے وقت آپ کی بڑی بہن زندہ تھی،اسی لیے والد کی میراث میں سے ان کو حصہ ملے گا،اور پھر اب ان کے انتقال کے بعد ان کا وہ حصہ ان کی اولاد میں تقسیم ہوجائے گا،لیکن چوں کہ والدہ کے انتقال کے وقت آپ کی بڑی بہن کا انتقال ہوچکا تھا،اسی لیے والدہ کی میراث میں سے انہیں کچھ نہیں ملے گا۔

2- آپ کے والد کے انتقال کے وقت والد کے جو جو ورثاء حیات تھے،وہ سب اس دکان کے حصے دار ہیں،دکان کو بیچ کر تمام ورثاء کو ان کا حصہ دیا جائے گا،اور اس کی تقسیم  کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کے والد مرحوم  کے حقوقِ متقدّمہ یعنی تجہیز وتکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد،  اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ  سے ادا کرنے کے بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں سے نافذ کرنے کے بعد،  کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ  کو 13824 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کے زندہ بیٹے کو 6192 حصے،اور اس کی زندہ بیٹی کو3096حصے،مرحوم بیٹے  (جس کا والد کے بعد انتقال ہوا)اس کی بیوہ کو 378حصے،اس کے بیٹۓ کو 714حصے،اس کی ہر بیٹی کو 357 حصے،اور مرحومہ بیٹی کے ہر بیٹے کو 280حصے،اور اس کی بیٹی کو 140حصے،اور جس بیٹے کا دوسرے نمبر پر انتقال ہوا،اس کی بیوہ کو 756 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہوگی:

میت والد مرحوم:8/ 64/ 4608/ 13824

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
814141477
576فوت شدہ10081008504504
1728-30243024فوت شدہ1512
فوت شدہ-فوت شدہ---

میت مرحوم بیٹا:24/ 144/ 72، مافی الید:14/ 7

بیوہوالدہبیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
3417
18243417171717
126168238119119119119
378504714357357357357
-فوت شدہ-----

میت مرحومہ بیٹی:6/ 54/ 3، مافی الید:504/ 28

والدہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
15
9101010105
252280280280280140
فوت شدہ-----

میت دوسرے نمبر پر انتقال کرنے والا مرحوم بیٹا:12/ 36/ 1، مافی الید:3024/ 84

بیوہوالدہبھائی بہن
327
96147
7565041176588
-فوت شدہ--

میت مرحومہ والدہ:3/ 1، مافی الید:2988/ 996

بیٹابیٹی
21
1992996

یعنی فیصد کے اعتبار سے  مرحوم کے زندہ بیٹے کو 44.80فیصد،اور ان کی زندہ بیٹی کو 22.40فیصد،مرحوم بیٹے  (جس کا والد کے بعد انتقال ہوا)اس کی بیوہ کو 2.73فیصد،اس کے بیٹۓ کو 5.16فیصد،اس کی ہر بیٹی کو 2.58فیصد،اور مرحومہ بیٹی کے ہر بیٹے کو 2.02فیصد،اور اس کی بیٹی کو 1.01فیصد،اور جس بیٹے کا دوسرے نمبر پر انتقال ہوا،اس کی بیوہ کو 5.46فیصد ملے گا۔

3-اگر والد نے بہن کو حصہ دیتے وقت یہ معاہدہ کیا  تھا کہ یہ تمہاری میراث کا حصہ ہے،اور بعد میں تمہیں میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا،اور آپ کی بڑی بہن نے اس کو قبول بھی کرلیا تھا،تو اب والد کی میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں ،لیکن اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا،بلکہ ویسے ہی والد نے اپنی بیٹی کو زمین گفٹ کی تھی،میراث میں سے ہونے کی صراحت نہیں کی تھی،اور نہ کوئی معاہدہ ہوا تھا،تو بہن وراثت میں حقدار ہوگا،اور اس کو اب والد کی بقیہ جائیداد میں سے حصہ ملے گا،ایسی صورت میں والد کی اپنی بیٹی کو حصہ نہ دینے کی وصیت معتبر نہیں ہوگی۔

رد المحتار ميں ہے:

"بيانه أن شرط الإرث وجود الوارث حيا ‌عند ‌موت ‌المورث."

 

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:769، ط:سعيد)

وفیہ ایضا:

"قال القهستاني: واعلم أن ‌الناطفي ذكر ‌عن ‌بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئا كالدار على أن لا يكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز وبه أفتى بعضهم وقيل لا اهـ".

(‌‌كتاب الوصايا، ج:6، ص:655، ط:سعید)

جامع الفصولین میں ہے:

"(جف) جعل لأحد بنيه دارا بنصيبه على أن تكون له بعد موت الأب ميراثا قيل: جاز وبه أفتى بعضهم وقيل: لا".

(الفصل الرابع والثلاثون في الأحكامات، باب الوصية،ج:2،ص:190، ط : اسلامي كتب خانة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں