بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو الحجة 1446ھ 30 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، والدہ، حقیقی بہن بھائی، ماں شریک بہن بھائی کے میراث کا شرعی طریقہ


سوال

میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، اور میری آمدنی  کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ہم دونوں بے اولاد تھے۔ میرے شوہر نے وراثت میں ایک فلیٹ اور ایک گاڑی چھوڑی ہے۔ ان کی والدہ زندہ ہیں، جبکہ ان کا ایک بھائی اور ایک بہن حقیقی ہیں، اور ایک بھائی اور ایک بہن سوتیلے ہیں۔ دونوں والدین شوہر سے پہلے  وفات پا چکے ہیں۔

فلیٹ  ہم  دونوں (میرے اور میرے شوہر) کے نام پر ہے،کیونکہ ہم دونوں نے مل کر  آدھا آدھا خریدا تھا   ،اب  کچھ قرضہ بھی باقی ہے۔ ورثاء میں بیوہ، والدہ، سگے بھائی بہن اور سوتیلے بھائی بہن شامل ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا سوتیلے بھائی بہن کو بھی وراثت میں حصہ ملے گا؟ اگر ہاں، تو کس حساب سے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم شوہر کی وراثت   کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے ، کہ سب سے پہلے مرحوم  کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالا جائے ،اس کے بعد  میت پر جتنا قرضہ ہے ،تو اس کو کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد ،اور اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہے ،اس کو باقی مال کے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کر نے کے بعدبقیہ کل ترکہ (منقولی و غیر منقولی )کو 12 حصوں میں تقسیم کر کے 3 حصے بیوہ(سائلہ) کو ،2حصے والدہ کو ،2 حصے حقیقی بھائی کو ،1حصہ حقیقی بہن کو ،2،2،حصے ہر ایک سوتیلے بہن ،بھائی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم   یہ ہے:

میت:12

بیوہوالدہحقیقی بھائیحقیقی بہن ماں شریک بھائیماں شریک بہن
322122

یعنی فیصد کے اعتبار سے 25 فیصد بیوہ کو ،16.666فیصد والدہ کو ،16.666فیصد حقیقی بھائی کو ،8.333فیصد حقیقی بہن کو،اور 16.666فیصد ماں شریک بھائی کو،16.666فیصد ماں شریک بہن کو ملے گا۔

باقی زیر نظر مسئلہ میں اگر واقعۃً مذکورہ  فلیٹ سائلہ اور اس کے مرحوم شوہر نے اپنی اپنی آدھی رقم سے خریدا تھا ،تو ایسی صورت میں آدھا فلیٹ سائلہ کی ملکیت ہے ،نصف فلیٹ مرحوم شوہر کے ترکہ میں داخل نہیں ہے ،البتہ باقی نصف حصہ سائلہ سمیت دیگر شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا ،نیز مرحوم شوہر پر فلیٹ کی بابت جتنا قرضہ ہے وہ مرحوم شوہر کے ترکہ میں سے منہا کیا جائےگا۔

أحكام القرآن للجصاص   میں ہے:

"فهذه الكلالة هي الأخ والأخت لأم لا يرثان مع والد ولا ولد ذكرا كان أو أنثى وقد روي أن في قراءة سعد بن أبي وقاص [وإن كان رجل يورث كلالة أو امرأة وله أخ أو أخت لأم] فلا خلاف مع ذلك أن المراد بالأخ والأخت هاهنا إذا كانا لأم دونهما إذا كانا لأب وأم أو لأب وقد روي عن طاوس عن ابن عباس أن الكلالة ما عدا الولد وورث الإخوة من الأم مع الأبوين السدس وهو السدس الذي حجبت الأم عنه وهو قول شاذ وقد بينا ما روي عنه أنها ما عدا الوالد والولدولا خلاف أن الإخوة والأخوات من الأم يشتركون في الثلث ولا يفضل منهم ذكر على أنثى."

(ج:3،ص:21 ،ط:دار إحياء التراث العربي،بيروت)

السراجي في الميراثمیں ہے:

وأما لأولاد الأم فأحوال ثلاث: السدس للواحد، والثلث للاثنين فصاعدا، ذكورهم وإناثهم في القسمة والاستحقاق سواء، ويسقطون بالولد وولد الابن وإن سفل، وبالأب ولجد بالاتفاق.

(ص:16،ط: مكتبة البشرى)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں