بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث اور ہبہ سے متعلق مختلف سوالات


سوال

 میرے سسر کی وراثت میں پگڑ ی کی دکان تھی چوں کہ 2004ء میں دکان پگڑی سے اونر شپ میں کروائی جس کی رقم ہم تینوں بھائیوں کی بیویوں نے برابر کا حصہ ملاکر ادا کر دیا ،فی حصہ دار  /150000 روپے اد کیے گئے،اس بات کے گواہ ہمارے   تینوں  شوہر اورنندوئی صاحب بھی ہیں ، دکان کی ا ونر شپ کے بقایا جات ادا کرنے کے بعد سسر کو عزت اور بڑائی دینے کے لیے  دکان ان کے نام کی گئی اس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد سسر کا انتقال ہوگیا

1-ان کے ورثاء میں ایک بیوہ ،تین بیٹے، 2 بیٹیاں ہیں، ان میں میراث کیسے تقسیم ہوگی؟

2- بیوہ جوکہ ابھی حیات ہے ان کے تین بیٹے دو بیٹیوں میں میراث کیسے تقسیم ہوگی ؟

3-بیوہ کی صحت بولنے  سمجھنے سے قاصر ہےکیا ایسی صورت حال میں والدہ کا شرعی حق جو دکان میں بنتا ہے کیا ہم سب بہن بھائی باہمی رضامندی سے آپس میں تقسیم کرسکتے ہیں ؟

4-بیوہ کے نام ایک فلیٹ ہے جو ان کے شوہرنے ان کے نام کیاتھا، کیا بیوہ  اولاد کو بتائے بغیر کسی ایک کے نام کرسکتی ہے؟

5-سسر نے اپنی ایک بیٹی جو کہ (غیر شادی شدہ ہے ) کے لیے زیور بنوایا، کب بنوایا ،کتنا زیور تھا اس کا بھائیوں کو کچھ پتہ نہیں ، بیٹی جس کے لیے زیور بنوایا تھا، بقول ان کے والد نے اس کے لیے زیور بنوایا اور بعد میں اس کو بیچا ، اب مذکورہ بیٹی بھائیوں سے زیور کی رقم مطالبہ کررہی ہے، کیا اس کی زیور کی رقم بھائیوں پر لازم ہے؟

تنقیح:شوہر نےبیوہ کو مذکورہ فلیٹ  نام کروانے کے بعد دیگر ورثاء کے ساتھ مرنے تک اس میں رہائش پذیر تھے ۔

والد صاحب نے بیٹی کے لیے زیور بنوانے کے بعد بیٹی کو قبضہ نہیں دیا تھا  ۔

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں مرحوم   کی میراث تقسیم کرنے  شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلےمرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اسے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے  ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد، باقیکل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ    کو64 حصوں میں تقسیم کرکے بیوہ 8 حصے، ہربیٹے  کو 14 حصے، ہربیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔

تقسیم کی صورت یہ ہے:

میت:والد    8 /64

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹی بیٹی
17
814141477

یعنی سو فیصد میں 12.5فیصد بیوہ کو 2188فیصد ہر بیٹے کو 10.93فیصد ہر بیٹی کو ملیں گے۔

2-کسی شخص کے انتقال  کے بعد ان کی میراث تقسیم کی جاتی ہے ، زندگی میں آدمی خود اپنی جائیداد کا مالک ہوتا ہے،لہذا بیوہ کی زندگی میں  ان کی جائیداد تقسیم کرنا جائز نہیں ہے ۔

3-بیوہ اگرچہ ضعیف العمری کی وجہ سے بولنے سمجھنے سے قاصر ہو لیکن  ان کی حیات میں  ان کی جائیداد تقسیم کرنے کی اولاد کو اجازت نہیں ہے۔

4-شوہرکا بیوہ کو مکان دینا شرعا ہبہ( گفٹ) ہے اور    ہبہ(گفٹ) درست ہونے کے لیے مالکانہ اختیارات دینے کے  ساتھ ساتھ قبضہ دینا بھی  ضروری ہے،ہر چیز کا قبضہ اسی چیز کے حساب سے ہوتا ہے،   مکان کا قبضہ   تام ہونے کے ضروری ہے کہ  واہب(جو ہبہ کررہاہو) کچھ وقت کے لیے اس مکان سے  اپنا سامان سمیت نکل جائے تو موہوب لہ ( جس کو ہبہ کیا جارہا ہے) کا قبضہ تام ہوجائے گا،صورتِ مسئولہ میں چوں کہ شوہر  مذکورہ مکان میں تاحیات رہائش پذیر تھے اس لیے  شرعا یہ ہبہ درست نہیں ہے لہذا یہ مکان شوہر کے دیگر ترکہ کے ساتھ تمام شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا ۔

5- والد صاحب نے اپنی بیٹی کے لیے زیور بنوایا لیکن اس کے حوالہ نہیں کیا تو یہ زیور والد ہی کا تھااگر انہوں نے بعد میں اسے اپنی ضرورت کے لیے فروخت کردیا تویہ ان کاحق تھا اب بیٹی کا بھائیوں سے زیور کی رقم کا مطالبہ کرنا شرعا درست نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و شروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه". 

( کتاب الفرائض، ج:10، ص:525، ط:رشیدیه)

درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:

أما هبة المشغول فلا تجوز أي لا تجوز هبة المال المشغول بمتاع الواهب وملكه (البهجة) ؛ لأن الموهوب إذا كان مشغولا بمتاع الواهب كان كالمشاع وفي حكمه. مثلا لو وهب أحد داره المشغولة بأمتعته وسلمه إياها فلا تجوز. إلا إذا سلمها بعد تخليتها من الأمتعة المذكورة. فحينئذ تصح الهبة كما تصح لو وهبه الأمتعة أيضا وسلمه الكل معا (انظر المادة 24) (الطحطاوي)۔۔۔۔لو ‌سلم ‌الواهب الدار وهو موجود فيها أو أهله فلا يصح هذا التسليم (الهندية عن الخانية)."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة، المبحث الأول في حق الشروط الباقية المتعلقة بالموهوب، ج:2، ص:427، ط:رشیدیه)

البحرالرائق میں ہے:

"‌وفي ‌الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع متميزا غير مشغول على ما سيأتي تفصيله وركنها هو الإيجاب والقبول وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ."

(کتاب الهبة، ج:7، ص:284، ط:دارالکتاب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601100528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں