بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

میراث میں سے صرف نقدی کی جلد تقسیم کا حکم


سوال

والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ میں کچھ جائیداد ہیں، کچھ نقدی ہے، اور کچھ لوگوں پر قرض ہیں، اور ایک گاڑی ہے، اب ورثاء کی خواہش ہے کہ جو نقدی ہے اسے فوراً سب میں تقسیم کر لیں، باقی چیزیں بعد میں ایک ساتھ یا وقفے وقفے سے تقسیم ہو جائیں،اب  تمام ترکہ کے تقسیم ہونے سے پہلے صرف نقدی کو تقسیم کرنا صحیح ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اس کی متروکہ تمام چیزوں میں اس کے شرعی ورثاء کا حق متعلق ہو جاتا ہے، اور تمام ترکے کو شرعی حصوں کے مطابق ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری ہوتا ہے، کسی بھی وارث کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے وارث کی حق تلفی کرے۔

بناء بریں صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد کے تمام ترکے میں تمام ورثاء کا حق ہے اور تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے حساب سے اس ترکہ میں شریک ہیں، لہذا ہر وارث کو اس کا مکمل شرعی حصہ ادا کرنا ضروری ہے، اور  اگر اس  متروکہ جائیداد وغیرہ  سے کوئی نفع ( کرایہ وغیرہ ) حاصل ہو رہا ہو تو جب تک وہ تقسیم نہیں ہو جاتی ، اس سے حاصل ہونے والے نفع میں بھی تمام ورثاء  اپنےشرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا۔ 

باقی اگر فی الحال صرف متروکہ نقدی ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں، ہر وارث کے حصے کی تفصیل تمام ورثاء کی تعداد بتا کر معلوم کی جا سکتی ہے۔

ملحوظ رہے کہ وراثت کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنا چاہیے، بلا وجہ تاخیر  کرنے سے بہت سی پیچیدگیاں اور بدگمانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور بعض مرتبہ زیادہ تاخیر کرنے کی وجہ سے میراث کی تقسیم  میں سخت الجھنیں اور مشکلات  بھی پیدا ہوجاتی ہیں اور  بسا اوقات حق تلفی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔

قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :

"لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا" ﴿النساء: ٧﴾

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وقسمة رضا: وهي التي يفعلها الشركاء بالتراضي."

 (کتاب القسمة،7 / 19، ط : بیروت)

درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام میں ہے:

"(تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) ‌تقسم ‌حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88) .

الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك."

(الکتاب العاشر الشرکات، الباب الأول، الفصل الثانی، ج: 3، ص: 26، المادة: 1073، ط: دار الجیل)

الدر المختار میں ہے:

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم ‌بطلب ‌كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول."

( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606102209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں