اگر والد کا انتقال ہوگیا ہے اور اولاد بالغ لیکن غیر شادی شدہ ہوں تو کیا وراثت کی تقسیم کو مؤخر کرنا جائز ہے؟اور اگر نہیں تو مشترکہ خرچ کس طرح ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم کی اولاد سمجھ دار نہیں تو سمجھ دار ہونے تک تقسیم کو موخر رکھنے کی گنجائش ہے،تاہم اس دوران مرحوم کے ترکہ میں جو کچھ اضافہ ہوگا وہ سب کا سب مرحوم کا ترکہ شمار ہوگا، خواہ اضافے کا ظاہری سبب کسی ایک وارث کی محنت ہو، لیکن اگر تمام ورثا بالغ اور سمجھ دار ہوں اور کوئی وارث تقسیم کا مطالبہ کرے تو تقسیم میں تاخیر کرنا جائز نہیں، جب تک تقسیم نہ ہو اس وقت تک ہر وارث اپنے شرعی حصے کے تناسب سے ترکہ سے منافع حاصل کرنے کا حق دار ہوگا،اگر ورثاتقسیم کے بعد بھی مشترکہ طور پر رہتے ہیں تو خرچے کی تقسیم آپس میں طے کرلیں، لیکن اگر تمام ورثا اس بات پر راضی ہوں کہ ترکہ کو تقسیم کیے بغیر مشترک طور پر رہیں اور خرچہ مشترک چلاتے رہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين، كتاب القسمة 6/ 260 ط: سعيد)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201126
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن