بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کے مشترکہ مکان میں ایک وارث کا تصرف


سوال

میرے والد صاحب  کا انتقال ہوگیا ہے۔  ورثاء میں بیوہ  ،ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں ۔والد کے والدین پہلے انتقال کر گئے تھے ۔ والد کا ایک گھر تین کمروں  پر   مشتمل  ہے۔والدہ نے اس میں سے مجھے ایک کمرہ  دیا ہے جس میں  میرے لیے کافی مشکلات کا سامنا ہے  اور والدہ نے دو کمروں کو لاک  کر دیا ہے۔ایک کمرے کو والدہ نے بیٹی کے نام کر کے تالا لگا دیا ہے،  جب کہ وہ بیٹی کینیڈا میں رہتی ہے  ۔والدہ کہتی ہیں کہ جب  بھی وہ  پاکستان  آئے گی  تو وہ  اس کمرے میں رہائش اختیار کرے گی،گھر  میں  بھی  اس  کا حصہ ہے ، اس لیے یہ کمرہ اس کے لیے بند  کیا ہوا ہے ،جب کہ دوسرے کمرے  کو والدہ  نے اس لیے  تالا لگایا ہے  کہ بعد میں  وہ خود   رہائش اختیار کریں   گی ،جب کہ والدہ   ابھی چھوٹی  خالہ کے گھر میں رہائش پذیر ہیں ۔

ا ب  میرا سوال یہ ہے کہ  کیا میرا  یہ حق بجا ہے کہ   والدہ   میرے لیے  ان خالی کمروں کو  کھولیں؛  تاکہ فی الحال  میں اس  میں آسانی کے ساتھ رہوں  اور جب  میراث تقسیم ہو تو   ہر ایک کو  اس کے شرعی حصے کے مطابق مل جائے یا میں والدہ  سے یہ مطالبہ کرسکتا ہوں  کہ والدہ ہمارے  والد کے اس گھر کو  ہم بہن بھائیوں کے درمیان  ٍ شریعت  کے مطابق  تقسیم کریں ،یا  اس گھر میں مزید  کمرے بنانے کی بھی جگہ ہے  تو کیا  میں والدہ سے  یہ مطالبہ  کر سکتا ہوں  کہ میں  اس گھر میں اپنے لیے  ایک اور کمرہ بنا  لوں؟  

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں اس کے تمام شرعی ورثاء  اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حق دار ہوتے ہیں اور کسی ایک وارث کے لیے جائز نہیں کہ وہ  دوسرے وارث کے حصے کو اس کی رضامندی کے بغیر اپنے ذاتی استعمال میں لائے۔

 لہٰذاصورتِ مسئولہ میں سائل کے  والد صاحب کے مذکورہ متروکہ مکان میں  ان کے ورثاء(بیوہ،دو بیٹیاں اور ایک بیٹا) اپنے اپنے شرعی حصوں کے اعتبار سے حق دار ہیں ۔

سائل کے والد مرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات )ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے  بعد،اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی  مال کے تہائی  حصہ میں سے  اسے  نا فذ کرنے کے بعد  باقی تمام ترکہ    منقولہ و غیر  منقولہ کو 32حصوں میں تقسیم کر کے  مرحوم کی بیوہ کو4 حصے،بیٹے کو14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو7 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 8 /32 والد مرحوم

بیوہبیٹابیٹیبیٹی
17
41477

یعنی  مذکورہ مکان میں بیوہ12.50فیصد،ہر ایک بیٹی21.875فیصد اور بیٹا(سائل)43.75فیصد کا حق دار ہے۔

لہٰذا سائل مذکورہ مکان میں سے اپنے حصے کے بقدر   حصے کو والدہ اور  اپنی دونوں بہنوں  کی اجازت کے بغیر استعمال کرسکتا ہے اور   جب تک والد صاحب کی میراث تقسیم نہیں ہورہی اور  سائل کو  مشکلات کا سامنا ہے تو دیگر ورثاء (بیوہ  اور دو بیٹیوں)کی رضامندی سے  ان  کے حصے  کو بھی  اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ لیکن اگر  والدہ اور سائل کی بہنیں  مذکورہ مکان میں سے اپنے حصے کے بقدر  سائل کو رہائش کے لیے دینے کے لیے رضامند نہ ہوں تو سائل مذکورہ گھر کی تقسیم کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

تاہم اگر والدہ  اور سائل کی دونوں بہنیں  دونوں صورتوں میں سے کسی پر راضی نہ  ہوں تو سائل ان  کی اجازت سے مذکورہ گھر کی خالی جگہ پر اپنے  لیے کمرہ وغیرہ تعمیر کرسکتا ہے،  ایسی صورت میں گھر کے بٹوارے کے وقت اگر تعمیرات  سائل کے حصے میں آجائیں تو  ٹھیک اور اگر دیگر ورثاء (  والدہ یا بہنوں) کے حصے میں آئیں  تو تعمیرات کا خرچہ سائل کو ملے گااور کمرہ وراثت میں تقسیم ہوگا۔ 

و في مشکاۃالمصابیح:

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم:ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(باب الغصب والعاریة،۱/۲۶۱ط: رحمانیہ)

وفي شرح المجلة لسليم رستم باز:

"(المادة:97) لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانیة، 1/51، ط:رشیدیة)

و في الفتاوى الهندية:

"دار بين رجلين نصيب أحدهما أكثر فطلب صاحب الكثير القسمة وأبى الآخر فإن القاضي يقسم عند الكل وإن طلب صاحب القليل القسمة وأبى صاحب الكثير فكذلك وهو اختيار الإمام الشيخ المعروف بخواهر زاده وعليه الفتوى في البيت الصغير بين رجلين إذا كان صاحب القليل لا ينتفع بنصيبه بعد القسمة فطلب صاحب القليل القسمة قالوا: لا يقسم وذكر الخصاف دار بين رجلين نصيب كل واحد لا ينتفع به بعد القسمة وطلب القسمة من القاضي فإن القاضي يقسم وإن طلب أحدهما القسمة وأبى الآخر لا يقسم لأن الطالب متعنت وإن كان ضرر القسمة على أحدهما بأن كان نصيب أحدهما أكثر ينتفع به بعد القسمة فطلب صاحب الكثير القسمة وأبى الآخر فإن القاضي يقسم وإن طلب صاحب القليل لا يقسم وحكي عن الجصاص على عكس هذا كذا في فتاوى قاضي خان والأصح ما ذكره الخصاف كذا في التبيين."

(کتاب القسمة، الباب الثالث في بیان ما یقسم و ما لا یقسم/5/ 207/ط:رشیدیہ)

و في الدر المختار و حاشية ابن عابدين:

"(بنى أحدهما) أي أحد الشريكين (بغير إذن الآخر) في عقار مشترك بينهما (فطلب شريكه رفع بنائه قسم) العقار (فإن وقع) البناء (في نصيب الباني فبها) ونعمت (وإلا هدم) البناء، وحكم الغرس كذلك بزازية.(قوله بغير إذن الآخر) وكذا لو بإذنه لنفسه لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء. أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة رملي على الأشباه (قوله وإلا هدم البناء) أو أرضاه بدفع قيمته ط عن الهندية.أقول: وفي فتاوى قارئ الهداية: وإن وقع البناء في نصيب الشريك قلع وضمن ما نقصت الأرض بذلك اهـ وقد تقدم في كتاب الغصب متنا أن من بنى أو غرس في أرض غيره أمر بالقلع وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو غرس أمر بقلعه إن نقصت الأرض به، والظاهر جريان التفصيل هنا كذلك."

(کتاب القسمة، مطلب لکل من الشرکاء السکنی في بعض الدار بقدر حصته، /6/ 268/ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100448

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں